Hate Nursery or Islamophobic Kindergarten

نفرت کی نرسری

یا

*بھارت میں پنپتا کنڈرگارٹن اسلاموفوبیا*

ترپتا گپتا یہ نام ہے اس خاتون ٹیچر کا جس کا ویڈیو جمعہ کو یعنی گذشتہ روز پورے ملک میں وائرل ہوا ہے اور یہ خاتون ضلع مظفر نگر کے ایک گاؤں کھبا پور کے ایک اسکول میں ٹیچر ہے۔

اس ویڈیو میں وہ ایک آٹھ سالہ مسلم بچے کو عام بچوں سے الگ کھڑا کرتی ہے اور پھر دوسرے بچوں کو حکم دیتی ہے کہ وہ اسے اس وقت تک پیٹتے رہیں جب تک وہ خود انھیں رکنے کو نہ کہے۔ ظاہر ہے معصوم بچوں کے پاس اس کا حکم ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا اور انھوں نے شراتا نہیں بلکہ اپنی استانی کی فرماں برداری میں طوعا و کرہا اپنے ہی ایک ساتھی بچے کے ساتھ وہ کیا جس کے تصور سے ہی انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ لیکن جن لوگوں کو کسی قوم کی دشمنی انسان سے جانور بنا دیتی ہے ان کے لیے کیسی شرم اور کہاں کا احساس ندامت؟ وہ تو اپنی اندھی عقل اور پتھر دل کے ساتھ اخلاق وانسانیت کی موت کا جشن منانےسے بھی نہیں شرماتے۔ ایسے لوگ بغض و منافرت کے نشے میں اتنا مدہوش ہوتے ہیں کہ وہ استاذ ہی نہیں انسان ہونا بھی بھول جاتے ہیں۔ یہ سنگ دل اور وحشی خاتون بھی جو اپنے گھناؤنے اور ظالمانہ کرتوت سے معلم کے نام پر ایک سیاہ دھبہ بن چکی ہے اور وہ کچھ ایسے ہی طبقے سے تعلق رکھتی ہے جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے۔ اس کی وحشت اور سنگ دلی کی انتہا دیکھیے کہ جب اس کے مسلسل اکسانے کے باوجود ایک بچے نے اس مسلم بچے کو کچھ ہلکے سے تھپڑ مارا تو اس ٹیچر نے یہ کہتے ہوئے اس کی سرزنش کی کہ تم نے اتنی نرمی سے اس مسلمان کی اولاد کو کیوں مارا۔ بہر حال اسکول کے ہندو بچوں نے اس بدبخت و بے رحم ٹیچر کا حکم مانتے ہوئے اس کی موجودگی میں اس معصوم کو اتنا مارا کہ اس کا چہرا سرخ و سیاہ ہوگیا۔ وہ پے در پے مار سے تڑپتا رہا اور یہ نفرت زدہ خاتون اس پر اور اس کے مذہب پر پھبتیاں کستی رہی اور بچوں کو اسے مارتے رہنے پر اکساتی رہی۔ ہم نے اپنے ماں باپ سے سنا ہے اور پھر اپنے بچوں کے سامنے بھی اسے دہرایا ہے کہ ” سب سے اچھا مسلم بچہ— دین کا پکا من کا سچا”۔ اس خاتون نے اپنے بچوں اور پوری دنیا کے سامنے ایک کمسن مسلم بچے کو زدوکوب کروا کے اور اسے ہر طرح سے ذلیل وکم تر ہونے کا احساس دلا کر ان جملوں میں عملا اپنے یہ جملے بھی جوڑ دیے ہیں: “جو ہوگا مسلم بچہ–مسلم ہونے کی پائے گا سزا”۔ ہم اسے اسلامو فوبیا کا ایک نیا روپ یعنی کنڈر گارٹن اسلامو فوبیا ( Kindergarte Islamophobia) بھی کہ سکتے ہیں۔ اس میدان میں اولیت کا سہرا بھی شاید ہمارے ہی اس بد قسمت ملک کو ملا ہے۔

یہ تو رہی مسلمانوں کے خلاف بھارت میں پھیلتی نفرت کی آگ کا ایک نئی اور انوکھی مثال اور اس کی مختصر خونیں روداد۔ مگر میری توجہ اس سے کہیں زیادہ اس سوال پر ہے کہ آخر اس بچے کا قصور کیا تھا؟ نہ تو یہ اس کے ناقص ہوم ورک کا مسئلہ تھا، نہ ہی یہ کوئی تادیبی کاروائی تھی، اور نہ ہی اسے سبق نہ یاد کرنے کی سزا دی جارہی تھی۔۔۔۔۔۔ پھر اس کی خطا کیا تھی جس نے اس کی اپنی استانی کو جسے وہ بڑے پیار سے میم کہتا تھا اس کا دشمن بنا دیا تھا؟ کوئی بڑی شرارت؟ کوئی بد تمیزی؟، کوئی حکم عدولی؟، ساتھیوں کے ساتھ کوئی جھگڑا لڑائی؟ دوسرے مذہب کی کوئی اہانت؟ نہیں نہیں نہیں۔ پھر ایسا کیوں اور کیا ہوا جسے دیکھ کر آسمان لرزیدہ لرزیدہ اور زمین شرمندہ شرمندہ سی محسوس ہورہی ہے؟ دور نہ جائیے اس سوال کا جواب بھی اسی ویڈیو میں موجود ہے۔ یہ خاتون معلمہ، جیسا کہ ویڈیو کے ہر گذرتے پل سے ظاہر ہے، دراصل اس بچے کو بس مسلم ہونے کی سزا دے رہی تھی اور دوسرے بچوں کو اسے مارنے پر یہ کہ کہ کر اکساتی رہی کہ “اسے مارو یہ محمڈن (مسلم) ہے۔ میں ہر مسلم بچے کو ایسے ہی پیٹتی ہوں۔۔۔۔۔”۔ دوسرے لفظوں میں یہ فرقہ وارانہ نفرت کا زہر تھا جس نے اس ٹیچر کو خود اپنے ہی بچے(شاگرد) کو کھانے والی ناگن بنا دیا اور اسی کا ایک عملی نمونہ اس نے اپنے اسکول میں کھلے عام پیش کیا اور اس زہر نے اسے اتنا بے قابو کر دیا کہ ایسی شرمناک حرکت کرتے ہوئے جس پر پوری دنیا اس پر لعنت بھیج رہی ہے نہ تو اسے اپنے خلاف کسی کاراوئی کا ڈر محسوس ہوا اور نہ ہی اس غیر انسانی فعل پرایک لمحے کے لیے بھی اس کے دل و دماغ پر عوامی لعنت کا اندیشہ طاری ہوا۔بلکہ ایسا صاف محسوس ہوتا ہے کہ وہ برسوں سے مسلمانوں کے خلاف نفرت و عناد کی اس آگ کے ساتھ جی رہی ہے اور اب وہ اس نشے کی اس حد تک عادی ہوگئی ہے کہ وہ کہیں بھی اور کبھی بھی اسے کرنے میں کسی تردد سے کام نہیں لیتی۔ بھلا کسی لعنت یا کسی کاروائی کا ڈر اسے کیوں کر ہوتا جو وحشت کا یہ مظاہرہ یہ مان کر کر ہی تھی کہ مسلمانوں سے نفرت کرنا اس کا قومی اور مذہبی فریضہ ہے اور اپنے پردھان سیوک کے راستے پر چلتے ہوئے اپنے دھرم کی “خدمت” کا یہ بہت اچھا طریقہ ہے۔۔۔ آپ ہی سوچیں نفرت کے اس غلبے کے ساتھ بھلا وہ اپنے ضمیر کی آواز کیسے سنتی؟

ان سوالات سے بھی بڑا سوال میر نزدیک یہ ہے کہ ایک نوجوان خاتون ٹیچر یہاں تک پہنچی کیسے کہ اس کا قلب و ذہن مسلمانوں کے خلاف اس حد تک مسموم ہوجائے کہ اسے یہ بھی یاد نہ رہے کہ اس انسانی دنیا میں ہر شاگرد اپنے استاذ ہا استانی کے لیے اس کی اولاد کی طرح ہوتا ہے؟ اور اس کی اولاد ہی کی طرح وہ اس کی شفقت و محبت کا حق دار ہوتا ہے۔ یہ اولاد اپنے اس حق کے ساتھ نہ تو ہندو ہوتی ہے اور نہ مسلمان۔ یہی وجہ ہے کہ ہر استاذ/استانی اپنے شاگردوں اور زیر تعلیم بچوں کو اپنی اولاد ہی کی طرح دیکھتا یا دیکھتی ہے اور ایک اولاد کی ہی طرح اسے علم و ادب سکھاتا یا سکھاتی ہے۔ پھر دوبارہ پوچھوں گا کہ اس حقیقت کے باوجود مذہبی تفریق کا نظریہ اس خاتون کو کس طریقہ تعلیم اور کس نظریہ تدریس نے سکھایا ہے؟ مجھے نہیں لگتا کہ یہ سوال ان لوگوں کے لیے کچھ مشکل ہے جو ملک کے حالات سے واقف ہیں۔ جنھیں آئے دن وائرل ہونے والی موب لنچنگ کی ویڈیو کی خبر ہے، جنھیں موجودہ مرکزی حکومت کی ترجیحات کا علم ہے، جنھیں ابھی کچھ دنوں پہلے کہا گیا پردھان سیوک کا یہ جملہ نہیں بھولا ہے کہ ” ہم انھیں ان کےکپڑوں سے پہچانیں گے”۔ جنھیں یہ معلوم ہے کہ ہندتو کی علم بردار جماعتوں کی مرکزی و صوبائی حکومتوں میں ایسے بہت سے ہیں جو مسلمانوں کے خلاف چل رہی نفرت و عداوت کی اسی آندھی کے سہارے ہئ وزارت و امارت کے بڑے بڑے مناصب تک پہنچے ہیں اور آج بھی جب وہ منھ کھولتے ہیں تو ان کے منھ سے مسلم دشمنی کی پھپکے پھوٹتے ہیں، یقینا ایسے تمام لوگوں کو اس سوال کا جواب اچھی طر ح معلوم ہوگا (یاہونا چاہیے) کہ ایک معلمہ کے دل و دماغ میں فرقہ پرستی کا زہر اتارنے والے اصل لوگ کون ہیں اور کن کے پیدا کیے ہوئے ماحول نے اس کے اندر ایک معلمہ کی شفقت و مہربانی اور نرم خوئی و دردمندی کی شبنم کی جگہ بغض و نفرت کا بارود بھرا ہے؟

لیکن مجھے تعجب ہے کہ سب کچھ جانتے بوجھتے اس واقعے پر رائے زنی کرنے والوں کی اکثریت اپنے غصے کا نشانہ محض اس معلمہ کو بنا رہے ہیں جس کا قصور بس یہ ہے کہ وہ نفرت کی اس کان میں پیدا ہوئی ہے اور وہیں اپنے زہرآلود احساسات کو پروان چڑھایا ہے جو اپنے اندر رہنے والے ہر وجود کو سفید نہیں بلکہ سیاہ تر کرنے کا کام کرتی ہے۔ اس کی نفرت اپنی نہیں ہے بلکہ یہ ان لوگوں کے زہریلے نظریات کی پیداوار ہے جو اس ملک کے بچوں اور نوجوانوں کے دلوں میں کذب و فریب کی مدد سے یہ باور کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں کہ اس دنیا میں ہندووں کا دشمن نمبر ایک مسلمان ہے اور جو شب و روز انھیں علی الاعلان یہ سبق پڑھا رہے ہیں کہ اس دنیا کی سب سے قابل نفرت شیء مسلمان ہے۔ یہی اس بدلتے بھارت کا سب سے بڑا سچ ہے جسے نظر انداز کرکے ہم ایسے کسی واقعے کا درست تجزیہ نہیں کر سکتے جو اس اسکول کے افسوسناک واقعے کی طرح مسلمانوں کی مظلومیت و بے چارگی کا گواہ بنا ہو۔ اس لیے ضرورت ہے کہ ہم اپنے زاویہ نظر کو ذرا وسیع کریں اور ان بدلتے حالات کو عریاں آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش کریں جو ہمیں اصل حقیقت کے روبرو کرتے ہیں اور جس کی وجہ سے ہی یہ انسانیت سوز واقعات رونما ہورہے ہیں یا بقول راہل گاندھی ” اس ملک میں مسلمانوں پر حملے ہورہے ہیں”۔

یہی وہ بنیاد ہے جس کی وجہ سے میں شاہ پور علاقہ کی ایک خاتون اسکول ٹیچر کی اس سیاہ و شرمناک ذہنیت اور اپنے ہی ایک شاگرد کے ساتھ اس کے اس بہیمانہ سلوک کا اصل ذمہ دار اس کی بجائے ان لوگوں کو سمجھتا ہوں جنھوں نے آج اس ملک کو فرقہ پرستانہ نفرت کی آگ میں پوری طرح جھونک کر یہاں تک پہنچایا ہے اور اب بھی اپنے زہریلے فکر و خیال سے اسے برابر اس آگ میں جھونکے جارہے ہیں، جنھوں نے ایک معلمہ کو ڈائن کا روپ دیا ہے، جنھوں نے انسانوں کو وحشی بنانے کی صنعت کھول رکھی ہے، جنھوں نے برسوں کے پڑوسیوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنانے کا کام کیا ہے، جن کے نزدیک ہندووں اور ہندو دھرم کی سب سے بڑی خدمت مسلمانوں کو زیادہ سے سے زیادہ درد و الم میں مبتلا رکھنا ہے اور جنھوں نے نفرت، تعصب اور مذہبی و قومی تفریق و امتیاز کے اثرات کی لپیٹ میں صرف سیاست اور سماج ہی نہیں بلکہ پولس، عدلیہ اور میڈیا تک کو لانے کی مھم چھیڑ رکھی ہے۔

یہ یاد رکھیں کہ اس ملک کے امن و انصاف کو اصل خطرہ انھیں لوگوں سے ہے۔ یہی ہیں جو ترپتا جیسی خاتون معلمہ اور پرگیہ جیسی خاتون سیاست داں کو جنم دیتے ہیں۔ یہیں ہیں جو ملیانہ میں پولس کو ایک فرقہ کے لیےدرندہ بناتے ہیں، یہی ہیں جنھیں اپنے گھر یا کبھی مجبورا کسی پارک میں اجتماعی نماز ادا کرنے والے مسلمانوں سے ہندو کلچر خطرے میں محسوس ہوتا ہے اور وہ انھیں گرفتار کرکے جیل میں ڈالنے کا حکم صادر کرتے ہیں۔ اسکولوں اور معلمات کے دلوں تک میں دستک دینے والے اس نفرت انگیز طوفان کو نظر انداز کرنا یا ملکی سماج کے اس پہلو کو ان دیکھا رکھنا ان حالات کے ذمہ دار اور ان کے شکار دونوں کے حق میں مہلک ہے۔ ہوسکتا اپنی پھیلائی ہوئی مسلم دشمنی کی آگ کا یہ تباہ کن روپ دیکھ کر اور اسکولوں تک میں داخل ہوجانے والی فرقہ وارانہ و فسطائی نفرت و عناد کا یہ منظر دیکھ کر کبھی انھیں بھی پچھتانا پڑے جنھوں نے سالہا سال کی منصوبہ بندی سے نفرت کے یہ شعلے بھڑکائے ہیں جب انھیں یہ اندازہ ہوجائے کہ تباہی کا یہ دیو استبداد اگر یوں ہی بے لگام اور بے قابو رہا تو ایک نہ ایک دن وہ ان کے گھروں اور ان کے اپنے بچوں کو بھی نہیں چھوڑے گا۔۔۔۔۔۔ تو شاید انھیں واپس پلٹنے کا خیال آئے۔ لیکن اگر حالات ایسے ہی رہے تواس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔

ملک کو اور خود اپنے آپ کو اس پوائنٹ آف نو ریٹرن سے بچانے کی سب سے بڑی ذمہ داری مسلمانوں کی ہے لیکن اس کے لیے انھیں (1) سب سے پہلے اپنے زاویہ نظر کو درست اور قدرے گہرا کرنا ہوگا، جو نہ عارضی ہو، نہ سطح بیں ہو، نہ یک طرفہ ہو، نہ خوف زدہ ہو اور نہ کسی لالی پاپ سے فریب کھانے والا ہو (2) دوسرے انھیں “ایس او ایس” کا عادی (ہنگامی مدد کا فریادی) بننے کی بجائے خود اس ملک کا سیویر (نجات دندہ) بن کر ابھرنا ہوگا، اور صرف مسلمانوں سے نفرت کرنے والوں ہی نہیں بلکہ ان پر فقراء و مساکین کی طرح ترس کھانے والوں یا رحم کھانے کا احسان کرنے والوں پر بھی یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ان کے اندر صرف اپنے آپ کو ہی نہیں اس ملک کو بھی بچانے کا حوصلہ ہے اور صرف وہی ہیں جو اس ملک کے حال و مستقبل کو تباہ کرنے والوں، انسانیت کے دشمنوں اور نفرت کے سوداگروں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

(3) اس کے علاوہ ان کا اس فکر سے بھی دامن چھڑانا نہایت ضروری ہے کہ آنے والی ہر تباہی کا صرف وہی شکار ہوں گے۔ اس لیے کہ ایسا سوچنا اور سوچ کے مطابق جینا ان کے لیے نفسیاتی اور اسٹریٹجیکلی (از روئے حکمت عملی) دونوں پہلو سے بہت مضر ہوگا۔ جب کہ اس سوچ کے ساتھ اس بلائے نفرت کا مقابلہ کرنا یا اس کا سامنا کرنے کی تیاری کرنا کہ یہ صرف ان کے لیے نہیں پورے ملک اور انسانیت کے لیے تباہ کن ثابت ہوگی اس سے ان کے اندر ایک طرف نئی خود اعتمادی، بے خوفی اور قوت مزاحمت پیدا ہوگی جب کہ دوسری طرف ہر ممکنہ معرکہ آرائی کے وقت ان لوگوں کی طرف سے بھی انھیں کمک ملنے کی امید باقی رہے گی جنھیں ان کے سامنے بڑی چالاکی سے اپنے علاوہ یہاں کے تمام باشندوں کو صرف مخالف قوم یا دشمن لشکر کے بطور پیش کیا گیا ہے اور مسلمان بھی بلا تفریق اسے ایسا ہی سمجھتے آرہے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ کعبے کو اپنے پاسبان صنم خانوں سے بھی ملتے رہے ہیں۔

ایاز احمد اصلاحی

لکھنؤ یونیورسٹی

۲۶ اگست ۲۰۲۳

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *