Fikreaakhirat= فکر آخرت 

فکر سے مراد آپ کیا سمجھتے ہیں

آخرت سے مراد آپ کیا سمجھتے ہیں

آخرت کے مراحل بیان کیجئے

قرآن کی کوئی آیت جس میں آخرت کی فکر کے سلسلے میں ترغیب دلائی گئی ہو

کوئی حدیث جس میں آخرت کی فکر کے سلسلے میں ترغیب دلائی گئی ہو

آخرت کی فکر نہ ہونے کی وجوہات کیا ہوسکتی ہیں

آخرت کی فکر کرنے کے سلسلےمیں عملی مشکلات کیا آتے ہیں

ہمیشہ فکر آخرت ملحوظ رکھنے کے لئے کیا عملی تدابیر اختیار کئے

فکرِ آخرت

سید لطف اللہ قادری فلاحی

پی ڈی ایف / پرنٹ

عَنِ ابْنِ عمر رضی الللہ عنہما قال: اَخَذَ رَسُولُ اللہِ صَلُّٰی اللہِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَنْکبِیَّ فَقَالَ: ’’کُنْ فِیْ الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیْبٌ أوْ عَابِرٌ سَبِیْلِ وَکَانَ اِبْنُ عُمَرَرَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا یَقُوْلُ’’ اِذَا اَمْسَیْتَ فَلَا تَنْتَظِرْ الصَّبَاحَ وَاِذَا اَصْبَحْتَ فَلاَ تَنْتَظِرْ اَلْمَسَاءَ وَخُذْ مِنْ صِحَّتِکَ لِمَرْضِکَ وَمِنْ حَیَاتِکَ لِمَوتِکَ ( رواہ البخاری)

ترجمہ:’’ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دونوں شانوں سے پکڑا اورفرمایا’’ دنیا میں اس طرح زندگی بسر کرو گویا تم پردیسی ہویا مسافر ہو‘‘۔ اور ابن عمررضی اللہ عنہما اس حدیث کی تشریح یوں فرمایا کرتے تھے: جب تم زندہ سلامت شام کرو توصبح کو زندہ سلامت ہونے کا انتظار نہ کرو اور جب تم صبح کے وقت زندہ سلامت ہوتو شام کوزندہ سلامت ہونے کا انتظار نہ کرو اوراپنی صحت کواپنی بیماری کے لیے غنیمت جانو اور اپنی موت کوزندگی کے لیے غنیمت جانو‘‘۔ (بخاری)

عقیدۂ  آخرت

اس حدیث کی تشریح میں بعد میںکروںگا پہلے میں یہ وضاحت کرناچاہتا ہوں کہ دینِ اسلام سے عقیدۂ آخرت کی کیا اہمیت ہے۔قرآن کریم کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آخرت لازمی ہے اور آنےوالی ہے۔ دنیوی زندگی محدود ہے اور اخروی زندگی لا محدود ہے ۔ ہرانسان کو دنیا کی زندگی میں کیے ہوئے اعمال کا بدلہ آخرت میں  ملنے والا ہے۔ دنیا دار العمل ہے اورآخرت دار الجزاء ہے ۔

سورۃ الاعلیٰ میں فرمایاگیا :

بَلْ تُـؤْثِرُوْنَ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا۝۱۶ۡۖ وَالْاٰخِرَۃُ خَيْرٌ وَّاَبْقٰى۝۱۷ۭ اِنَّ ہٰذَا لَفِي الصُّحُفِ الْاُوْلٰى۝۱۸ۙ صُحُفِ اِبْرٰہِيْمَ وَمُوْسٰى۝۱۹ۧ

ترجمہ:’’ بلکہ تم دنیا کی زندگی کوترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔ یہ بات پہلے صحیفوں صحف ابراہیم وموسیٰ میں بھی ہے‘‘۔

مذکورہ آیت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ آخرت کی زندگی ہی باقی رہنے والی ہے اوریہ تعلیم قرآن کریم میں نئی تعلیم نہیں ہے ۔ بلکہ پچھلی آسمانی کتابوں میں بھی انسانوں سے یہی کہا گیا تھا کہ دنیا کی زندگی چند روزہ ہے اور بالآ   خرآخرت کی زندگی ہمیشگی کی زندگی ہوگی ا ور وہاں دنیا کے اعمال کا حساب وکتاب ہوگا اور جزا وسزا ملے گی ۔ مگر انسان اپنی کم عقلی اوراپنی کوتاہیوں کی وجہ سے دنیا کی زندگی کونہ صرف لمبی بلکہ شائد دائمی ہی سمجھتا ہے ۔

لیکن جب یہ ختم ہوجائےگی اور آخرت کے احوال پیش آئیں گے تواس وقت اِس زندگی کا مختصر ہونا صحیح طورپر ذہن نشین ہوجائے گا۔ پھراس وقت تو یوں محسوس ہوگا گویا کہ ایک دن یا شائد پورا دن بھی نہیں بلکہ دن کا کچھ حصہ ہی وہ دنیا میں رہا تھا۔ جیسے سورۂ یونس آیت نمبر 45 میں ہے :

وَيَوْمَ يَحْشُرُھُمْ كَاَنْ لَّمْ يَلْبَثُوْٓا اِلَّا سَاعَۃً مِّنَ النَّہَارِ

’’اور جس دن وہ انہیں اکٹھا کرے گا ایسے معلوم ہوگا گویا وہ ایک گھڑی دن سے زیادہ دنیا میں  نہیں ٹھہرے ‘‘۔

اِسی بات کی طرف سرکار ِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں فرمایا ہے : ’’ کہ دنیا کی مثال آخرت کے مقابلے میں بس ایسی ہے جیسے کہ تم میں سے کوئی آدمی اپنی ایک انگلی دریا میں ڈال کر نکال لے اورپھر دیکھے کہ پانی کی کتنی مقدار اس میں لگ کر آئی ہے‘‘۔ (مسلم)

انبیاء کرام علیہم السلام کی زندگی

انبیاء کرام علیہم السلام کی زندگیاں فکر آخرت سے کبھی خالی نہیں رہیں۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی آخرت کی فکر میں گزاری اوراپنے پیروؤں کوبھی یہی تعلیم دی کہ آخرت کوہمیشہ اپنے سامنے رکھیں۔

سورۂ ص کا مطالعہ کریں ۔ جہاں حضرت داؤد، حضرت سلیمان ، حضرت ایوب ، حضرت ابراہیم، حضرت اسحٰق اورحضرت یعقوب علیہم السلام کا تذکرہ کیا گیا وہاں معاً بعد یہ فرمایا گیا ہے کہ:

اِنَّآ اَخْلَصْنٰہُمْ بِخَالِصَۃٍ ذِكْرَى الدَّارِ۝۴۶(ص:46)

ترجمہ:’’ ہم نے ان لوگوں کوایک خالص صفت کی بنا پر برگزیدہ کیا تھا اور وہ دارِ آخرت کی یاد تھی‘‘۔

’’یعنی ان کی تمام سرفرازیوں کی اصل وجہ یہ تھی کہ ان کے اندر دنیا طلبی اور دنیا پرستی کا شائبہ تک نہ تھا ، ان کی ساری فکر وسعی آخرت کے لیے تھی، وہ خود بھی اس کویاد رکھتے تھے اوردوسروں کوبھی اس کی یاد دلاتے تھے۔ اِسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کووہ مرتبے دیے جودنیا بنانے کی فکر میں منہمک رہنے والے لوگوں کوبھی نصیب نہ ہوئے۔ اس سلسلہ میں یہ لطیف نکتہ بھی نگاہ میں رہنا چاہیے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے آخرت کے لیے الدار(وہ گھر یا اصلی گھر) کا لفظ استعمال فرمایا ہے ۔ اس سے یہ حقیقت ذہن نشین کرنی مقصود ہے کہ یہ دنیا سرے سے انسان کا گھر ہے ہی نہیں بلکہ یہ صرف ایک گزرگاہ ، ایک مسافر خانہ ہے ۔ جس سے آدمی کوبہرِ حال رُخصت ہوجانا ہے ۔ اصلی گھر وہی آخرت کا گھر ہے ۔ جوشخص اس کوسنوارنے کی فکر کرتا ہے وہی صاحبِ بصیرت ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک لا محالہ اسی کوپسندیدہ انسان ہونا چاہیے ۔ رہا وہ شخص جو اس مسافر خانہ میں چند روزہ قیا م گاہ کوسجانے کے لیے وہ حرکتیں کرتا ہے جن سے آخرت کا اصل گھر اس کے لیے اُجڑ جائے وہ عقل کا اندھا ہے اورفطری بات ہے کہ ایسا آدمی اللہ کوپسند نہیں آسکتا‘‘۔ (تفہیم القرآن ج ۴)

انبیا ء کرام علیہم السلام کی فکر آخرت کا اندازہ ان دو فقروں سے بھی لگایا جاسکتا ہے جو ابوالانبیاء حضرت ابراہیم خلیل اللہ ارشادفرماتے تھے ان میں سے ایک فقر ہ یہ ہے’’ وَالَّذِيْٓ اَطْمَــعُ اَنْ يَّغْفِرَ لِيْ خَطِيْۗــــــَٔــتِيْ يَوْمَ الدِّيْنِ۝۸۲ۭ  (شعرا ء :۸۲)’’اور رب سے امید کرتا ہوں کہ روزِ جزامیں وہ میری خطا معاف فرمادے گا‘‘۔

ان کا ایک دوسرا فقرہ یہ دعا ہے :

وَاجْعَلْنِيْ مِنْ وَّرَثَۃِ جَنَّۃِ النَّعِيْمِ(شعرا ء :۸۵)

’’اور مجھے جنت نعیم کے وارثوں میں شامل فرما‘‘۔

انبیاء علیہم السلام کے پیروؤں کی فکر آخرت

سورۂ مومن کے مرد مومن کے سرگز شت پڑھیے وہاں بھی آپ کومعلوم ہوگا کہ اس مرد مومن نے اپنی جان پر کھیل کر جوتقریر فرعون کے دربار میں کی تھی انہیں اس پر فکر آخرت نے ہی آمادہ کیاتھا ۔ ان کی تقریر کا یہ فقرہ کتنا دل آویز اورایمان سے لبریز ہے کہ یَقُوْمُ اِنَّمَا ہٰذِہِ الحٰیوۃُ الدُّنْیَا مَتَعٌ وَاِنَّ اْلآخِرَۃَ ہِیَ دَارُالْقَرَارِ‘‘ ’’اے میری قوم یہ دنیا کی زندگی تو متاعِ زندگی تو متاعِ چند روزہ ہے اصل دار القرار تو آخرت ہے ۔‘‘

فکرِ آخرت انبیاء علیہم السلام پر ایمان لانے والوں پر چھائی رہتی تھی۔ حضرت موسیؑ اورساحروں کا جب مقابلہ ہوا تو مقابلہ کے بعد جب ساحروں پر حقیقت عیاں ہوگئی تو وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے اورفکر آخرت ان پر ایسی چھائی کہ وہ جان کی بازی کھیل جانے سے بھی نہیں ہچکچائے۔

اقامتِ دین کے اگلے  قائدین

اقامتِ دین کے اگلے قائدین ومتبعین کی زندگیاں فکرِ آخرت اورانابت الی اللہ کی زندگیاں تھیں اوریہی وہ برقی روتھی جس نے انہیں زندگی کے آخری لمحے تک اللہ تعالیٰ کہ والہانہ اطاعت میں سرگرم رکھا۔ انہوںنے اقامتِ دین کے لیے سردھڑ کی بازی لگادی اورجب دین پوری طرح قائم ہوگیا تو اسے قائم رکھنے میں جان کھپادی ۔ اللہ کی عظمت، اس کا جلال، آخرت کی فکر اوریوم الحساب کی ہولناکی  کا تصو ر ان کےدماغ پر چھا گیا اوران کی رگ وپے میں سرایت کرگیا تھا ۔ اس چیز نے ان کے دلو ں کو نرم اور رقیق بنادیاتھا ۔ وہ قرآن کریم پڑھتے یا سنتے تو سسکیاں لینےلگتے۔ ان کے سینے سے ایسی  آواز نکلنے لگتی جیسے آگ پر ہانڈی پک رہی ہو۔وہ قبریں دیکھتے تو اتنا روتے کہ داڑھی آنسوؤں سے تر ہوجاتی ۔  وہ میدان ِ جنگ میں حیدر کرار تھےلیکن تنہائیوں میں خدا کے خوف اور آخرت کی فکر سے اس طرح کانپتے ، تلملاتے اوربے چین ہوتے جیسے انہیں بچھونے ڈنک ماردیا ہو۔ وہ صداقت وامانت میں صدیق ہوتے لیکن چڑیوں کوچہچہاتے دیکھتے تو کہہ اُٹھتے کاش میں بھی چڑیا ہوتا کہ آخرت کے حساب کتاب سے بچ جاتا ۔

وہ جب بازاروں کی نگرانی اورحکومت کے انتظام کے لیے نکلتے تو ان کے ہاتھوں میں دُرّہ ہوتا جس سے بڑے بڑے بہادر بھی تھرّاتے لیکن جہاں و ہ کسی مصیبت زدہ کو دیکھتے تو اس وقت تک انہیں چین  نہیں آتا جب تک اس کی مصیبت دور نہ ہوجائے۔ ان کی حکومت نیابت اِلٰہی کا اعلیٰ نمونہ تھی لیکن ان کے احساس کا حال یہ تھا کہ وہ اس بات سے ڈرتے کہ کہیں کوئی کوتاہی وبال نہ بن جائے۔

فکر آخرت کا مرکزی نقطہ یہی ہے کہ ایک دن خدا کے حضور میں حاضر ہوکراپنے اعمال کا جواب دینا ہے اس لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ایک شخص صحیح معنوں میں آخرت کی جزا وسزا پر ایمان رکھتا ہو اوراپنے قول وعمل میں دیانتدار نہ ہو۔

تاریخ اسلام سے روشن نمونہ

تاریخ اسلام میں ایسی بے شمار ہستیاں پائی جاتی ہیںجنہوںنے روشن نمونے چھوڑدیے ہیں ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ ایک دیانت دار خلیفہ راشد تھے۔ انہوںنے اپنی حکومت کی بنیاد ہی فکر آخرت پر رکھی تھی ۔ بیت المال سے صرف اتنا ہی خرچ لیتے تھے جوان کے گھر کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کردے۔ چراغ کی روشنی میں سرکاری کام کرتے مگر جب کوئی ملاقاتی آجاتا تو چراغ بجھادیتے۔ پوچھا گیا توفرمایا کہ اب تک سرکاری کام کررہا تھا۔ اب ذاتی کام کررہا ہوں۔

سلطان ناصر الدین محمود دہلی کے تخت کے مالک ہونے کے باوجود ذاتی اخراجات کے لیے خزانے سے ایک پیسہ بھی نہیں لیتے تھے ۔ وہ اپنے ہاتھ سے قرآن مجید لکھ کر روزی کماتے تھے۔ گھر میں کوئی کنیز نہ تھی اورملکہ کو اپنے ہاتھ سے کھانا پکانا پڑتا تھا۔ ایک دن انہوںنے سلطان سے ایک خادمہ کے لیے درخواست کی ۔ سلطان نے جواب دیا کہ تمہاری خواہش تو ٹھیک ہے مگر کیا کروں میں خزانے کامالک نہیں ہوں۔ اس کی مالک میری رعایا ہے ، اس میں سے کچھ لےنہیں سکتا۔ اپنے ہاتھ سے جوکچھ کماتا ہوں اس میں  اتنی گنجائش نہیں کہ لونڈی رکھ سکوں اس لیے صبر کرو ۔ خدا صبر کا بدلہ ضرور دیتا ہے۔

واقعات بے شمار ہیں۔ اصل چیز یہ دیکھنی ہے کہ ان کے اندر یہ صفات کیوں کر پیدا ہوئیں ۔ اس کی وجہ صرف آخرت کی فکر اور اس کی جواب دہی تھی ۔ فکر آخرت ہی ایک ایسی چیز ہے جس کے ذریعہ انسان کے اندر اچھے خصال اوراچھی صفتیں اوراچھے کردار پیدا ہوتے ہیں۔ دیانت داری، شجاعت، صبر و استقامت ، عالی ظرفی، جذبۂ صدقات وخیرات، اوقات کی قدر وقیمت کا احساس ۔ ان میں سے ہر صفت کے لیے احادیث وسیر ت میں بے شمار واقعات بیان کیے گئے ہیں۔

فکرِ آخرت کا مطلب دنیا سے کنارہ کشی نہیں ہے

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اورصلحاء عظام کی  زندگیوں پر فکرِآخرت غالب رہتی تھی مگر ایسا نہیںتھا کہ اس فکر سے وہ دنیا ہی سے کنارہ کش ہوگئے ہوں بلکہ آخرت کی کامیابی کی خاطر انہوںنے دنیا میں جانوں ا ور مالوں کی قربانیاں دے کر اسلامی انقلاب کوکامیاب بنایا۔ اسلام کو نافذ کیا۔ خلافت راشدہ کی ذمہ داریاں بخوبی نبھائیں۔ سب کچھ اس لیے کیا کہ آخرت سنور جائے۔ فکر آخرت کا اقامتِ دین سے لازم وملزوم کا رشتہ ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ اقامتِ دین کی جدوجہد میں لگنے والے لوگ کفن پوش ہوتے ہی اس لیے ہیں کہ آخرت میں اپنے مالک حقیقی کے سامنے سرخرو ہوجائیں۔ وہ ان سے خوش ہوجائے اوراپنی خوشنودی کا گھر جنت مرحمت فرمائے۔

اقامتِ دین کی جدوجہد کرنےوالے ہر کارکن کوفکر آخرت کے لحاظ سے اپنے حالات کا صحیح جائزہ خود لینا چاہیے ۔ ہم میں ہر شخص کواپنے گریبان میں جھانک کردیکھنا چاہیے کہ اس کے دل میں آخرت کی فکر کتنی ہے ؟ جس قدر یہ فکر مضبوط ہوگی اتنا ہی وہ اللہ کی راہ میں سرگرم عمل ہوگا۔ جس کے اندر اس فکر میں جس حدتک سستی ہوگی۔وہ اسی قدر راہِ خدا میں جدوجہد کرنے میں سست رفتار ہوگا۔

حدیث کی تشریح

ابتداء میں جوحدیث پیش کی گئی تھی اس کی مختصر تشریح یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ  دنیا میں اس طرح رہو جیسے ایک پردیسی پردیس میں رہتا ہے ۔وہ اس مقام کواپنا وطن نہیں سمجھتا ۔ اسی طرح اس دنیا میں اس مسافر کی طرح رہو جوکسی سرائے کواپنا مستقل گھر نہیں سمجھتا۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی تشریح ایک دوسری حدیث میں اس طرح فرمائی کہ مجھے دنیا سے کوئی تعلق نہیں میری اور اس دنیا کی مثال اس سوار کی مانندہے جوکسی درخت کے سائے میں دوپہر کاٹتا ہے پھروہ رختِ سفر باندھتا ہے اوراس درخت کے سایہ کوچھوڑ دیتا ہے ۔

امیر المومنین سید نا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کا قو ل ہے :’’ یہ دنیا تمہارے قرار کی جگہ نہیں ہے ۔ اللہ نے اس دنیا کے بارے میں فنا کا فیصلہ کیا ہے اوردنیا کے رہنے والوں کے لیے کوچ لازم قرار دیا ہے‘‘۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بھی اس حدیث کی شرح بیان فرمائی ہے کہ انسان کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ موت کا ایک وقت متعین ہے ۔ ایک سکنڈ بھی اس سے آگے پیچھے نہیں ہوسکتی لہٰذا انسان کو ہر وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس کی صبح بخیر وخوبی بسر ہوئی تو ضروری نہیں کہ اس کی شام بھی بخیر وخوبی گزرے گی۔

اِغْتَنِمْ فِیْ الْفَرَاغِ فَضْلُ رُکُوْعٍ

فَعَسٰی اَنْ یَکُوْنَ مَوْتُکَ بَغْتَۃً

کَمْ مِنْ صَحِیْحٖ مَاتَ مِنْ غَیْرِ سُقْمٍ

ذَہَبَتْ نَفْسُہُ الصَّحِیْحَۃُ فَمَاتۃً

’’فارغ البالی میں زیادہ سے زیادہ رکوع وسجود سے کام لوہوسکتا ہے کہ یکایک تمہاری موت آجائے اس لیے کہ کتنے ہیں جنہیں بیماری کے بغیر موت آئی اورتندرست وتوانا انسان چشم زون میں موت کی نذر ہوگئے‘‘۔

اوریہ جوفرمایا کہ اپنی صحت کوبیماری سے پہلے اوراپنی زندگی کوموت سے پہلے غنیمت جانو۔ اس کی تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری  حدیث سے ہوتی ہے۔جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ پانچ چیزوں کوپانچ سے پہلے غنیمت جانو ۔ جوانی کوبڑھاپے سے ، صحت کو بیماری سے پہلے، تونگری کوفقر سے پہلے ، فراغت کومصروفیت سے پہلے اورزندگی کوموت سے پہلے ‘‘۔

ان آیات واحادیث کا لب لباب یہی ہے کہ ہمیں فکر آخرت ہونی چاہیے۔ دنیا پر آخرت کوترجیح دینا چاہیے ۔ آخرت کی سرخروئی پر ہم سب کی نگاہ ہونی چاہیے۔

سَبِیْلُکَ فِیْ الدُّنْیَا سَبِیْلُ مُسَافِرِ

وَلَا بُدَّ مِنْ زَادٍ لِکُلِّ مُسَافِرٍ

وَلَا بُدَّ لِلْاِنسَانِ مِنْ حمَلِ عِدَّۃٍ

وَلاَ سِیَّمَا اَنْ خَافَ صولۃ قَاہِرِ

’’دنیا میں تمہارا سفر مسافر کی مانند ہے  اور ہرمسافر کے لیے زادِ راہ کا ہونا لازمی ہے اورجوکوئی کسی جابر کے خوف سے ڈرتا ہواس کے لیے ہتھیاروں کا بندوبست ضروری ہے ‘‘۔

اللہ تعالیٰ ہماری زندگیوں میں فکر آخرت کوپیدا فرمادے ۔ ہماری ساری جدوجہد فکر ِ آخرت کے نتیجہ میں ہو اورکامیابی عطا فرمائے۔

Thought=فکر

More translations

Expand all

  1. فکر
  2. اندیشه
  3. تفکر
  4. گمان
  5. نظر
  6. عقیده
  7. فکر
  8. اندیشه
  9. تصور
  10. انگاره
  11. خاطر
  12. طرز تفکر
  13. نظر
  14. عقیده
  15. اعتقاد
  16. نظریه
  17. گمان
  18. فکر
  19. مفهوم
  20. تصور
  21. نظریه
  22. اندیشه
  23. عقیده
  24. فکر
  25. مفهوم
  26. تصور کلی
  27. فکر
  28. قصد
  29. مقصود
  30. منظور
  31. تصمیم
  32. عزم
  33. فکر
  34. احتکار
  35. تفکر و تعمق
  36. زمین خواری
  37. خیال
  38. فکر
  39. سفته بای
  40. قصد
  41. نیت
  42. منظور
  43. مفاد
  44. تصمیم
  45. فکر

More translations
thought
Noun​فکراندیشه تفکرگمان نظرعقیدهSee dictionary
idea
Noun​فکراندیشه تصورانگاره خاطر طرز تفکرSee dictionary
opinion
Noun​نظرعقیده اعتقاد نظریه گمان فکرSee dictionary
notion
Noun​مفهوم تصور نظریه اندیشه عقیده فکرSee dictionary
concept
Noun​مفهومتصور کلیفکرSee dictionary
intention
Noun​قصد مقصود منظور تصمیم عزم فکرSee dictionary
speculation
Noun​احتکارتفکر و تعمق زمین خواری خیال فکرسفته بایSee dictionary
intent
Noun​قصد نیت منظورمفاد تصمیم فکرSee dictionary

The Concept of the Life Hereafter and Day of Judgement اسلام میں عقیدہ آخرت و قیامت

This article defines the meaning of belief in the hereafter and day of judgement in Islam and discusses its importance in personal and collective life. It also differentiates between  

The Literal meaning of Akhirah: آخرت کے لغوی معنی

 آخرت کے لغوی معنی ہیں بعد میں ہونے والی یاآخری چیز۔جبکہ آخرت کے مقابلے میں لفظ دنیا ہے جس کے معنی قریب کی چیز کے ہیں۔

 آخرت کے اصطلاحی تعریف

شریعت کی اصطلاح میں دنیا کی ہر شے فانی ہے اور ایک دن ایسا آئے گا جب ہر شے فنا ہوجائے گی اسی طرح سے انسان بھی فنا اور ختم ہوجائے گا کیونکہ انسان کی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے لہٰذا اس کا جسم مٹی میں مل کر مٹی ہاجائے گا جبکہ اس کی روح آسمان میں چلی جائے گی۔ اسی حوالے سے ارشاد خداوندی ہے کہ
۔ متقی ہیں وہ لوگ جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ (البقرہ۔ ۴)

دنیا اور آخرت کا فرق

 ا۔ دنیا قریب کی چیز ہے ، آخرت بعد کی اور دُور کی چیز ہے۔

ب۔ دنیا امتحان کی جگہ ہے۔

ج آخرت جزا یا سزا کی جگہ ہے۔

ر۔ دنیا کی زندگی عارضی ہے۔

س۔ آخرت کی زندگی ہمیشہ ہمیشہ کی ہے۔

ش۔ دنیا کی نعمتیں ختم ہوجانے والی ہیں۔ ۰۔ آخرت کی نعمتیں کبھی ختم نہ ہوں گی۔

ص۔ دنیا میں انسان اچھے یا برے اعمال کرتا ہے۔

ض۔ آخرت میں ان اچھے یا برے اعمال کے بدلے میں جنت یا جہنم ہوگی۔

آخرت کے مختلف نام

۔آخرت کے درج ذیل چندنام ہیں۔
(The Last Day)ا۔ الیوم الاخر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دنیا کا آخری دن۔۔۔۔۔۔۔۔۔..۔۔
(The Day of Grief) ب۔ یوم الحسرۃ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حسر ت اور افسوس کا دن۔۔۔۔۔
(The Day of Judgement)ج۔ یوم الفصل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فیصلے کادن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(The Day of Reality) ر۔ یوم الحق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سچا دن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(The Day of Distress)س۔ یوم عسیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک سخت دن۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(The Promised Day)ش۔ الیوم الموعود۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جس دن کا وعدہ کیا گیا تھا۔۔۔۔۔
(The Day of Calling and Wailing)ص۔ الیوم التناد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چیخ و پکار کا دن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وقوع قیامت،اعمال کی جواب دہی اور جزاو سزا

 Day of judgement, accountability، reward and punishment

عقیدہ آخرت کی اہمیت اور وقوع قیامت

یوم آخرت سے مراد موت کے بعد کی زندگی ہے۔ قرآن کریم کا شاید ہی کوئی صفحہ ایسا ہو جس میں عقیدہ آخرت سے متعلق کوئی اشارہ نہ پایا جاتا ہو۔ مثلاََ۔ روز قیامت،حساب کتاب، جنت جہنم، قبر، جزا سزا، مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنا، جنت کی نعمتوں کا ذکر،دوزخ کی سختیوں کا ذکر، کامیاب اور ناکام لوگوں کے قصے،گزشتہ اقوام پر عذاب کے واقعات وغیرہ۔

اسلام کے تصور آخرت کے مطابق یہ دنیا فانی ہے اور ایک دن یہ دنیا اور اس میں بسنے والی تمام مخلوق فنا ہوجائے گی۔پھر صور پھونکا جائے گا۔

اسی حوالے سے ارشادات خداوندی ہیں کہ
ا۔ جس دن صور پھونکا جائے گا اور اس دن اسی کی حکومت ہوگی۔(الانعام۔ ۳۷)
 ب۔ جس دن صور پھونکا جائے گا تو جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔سوائے جس کو اللہ چاہے سب گھبرا جائیں گے۔(النمل۔ ۷۸)
 ج۔ جس دن صور پھونکا جائے گا ہم گناہ گاروں کو اس دن نیلی آنکھوں کے ساتھ اکھٹا کریں گے۔ (طہ۔ ۲۰۱)
۔ جس دن صور پھونکا جائے گا۔ تو تم فوج در فوج چلے آو گے۔ (النباء۔ ۸۱)
ر۔ جب رسول اللہ ﷺ نے کفار سے مکہ سے یہ کہا کہ! یہ دنیا فانی ہے۔اور یہاں سے ایک دن ہم چلے جائیں گے اور روز قیامت ہم دوبارہ اٹھیں گے۔تو کفا ر مکہ نے یہ کہا کہ! بھلا ہم اور ہمارے باپ دادا جو کہ مٹی ہو چکیں وہ بھلا دوبارہ کیسے اٹھائے جائیں گے۔

اس پر ارشاد خداوندی ہوا کہ

ا۔ انھوں نے کہا کہ! جب ہڈیاں بوسیدہ ہوکرگل جائیں گی۔ تو ان کو کون زندہ کرے گا؟آپ ﷺ کہیے کہ! ان کو وہی زندہ کرے گا جس نے انھیں پہلی بار پیدا کیا تھا۔اور وہ ہر پیدائش کو خوب جاننے والا ہے۔(یسین۔ ۸۷۔۹۷)
 ب۔تو کیا ہم پہلی بار پیدا کرکے تھک گئے ہیں؟ (نہیں) بلکہ وہ اپنے ازسر نو پیدا ہونے کے متعلق شک میں مبتلا ہیں۔ (ق۔ ۵۱)

ج۔ عقیدہ آخرت پر ایمان لانا تمام مسلمانوں پر لازم ہے اور اس کے بغیر ایمان نامکمل ہے۔ انسان اس دنیا میں عارضی طور پر بھیجا گیا ہے تاکہ دنیا میں اچھے اعمال کرکے اپنے آخریٹھکانے پر کامیابی سے ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی کو بہترین طریقے سے بسر کرے۔

 س۔ تاہم خیر اور شر کی قوتیں ہر وقت انسان کے ساتھ رہتی ہیں جبکہ ایک لاکھ چوبیش ہزار پیغمبروں کو د میں بھیجنے کا اصل مقصد بھی یہی تھا کہ وہ انسانوں کو یہ بتائیں کہ اپنے شر پر قابو رکھتے ہوئے خیر کو پھیلائیں اور اللہ سے اپنے تعلق کو مضبوط بنیادوں پر استوار کریں۔

اگرچہ تمام پیغمبروں کی دنیا میں آمد، الہامی کتب کے نزول اور عبادات و قاعدے قوانین کی پابندی کے پیچھے دراصل ااخرت کی کامیاب زندگی کا حصول ہے۔ اسی لئے اللہ نے اپنے بندوں کے لئے توبہ کا دروازہ بھی کھول دیا ہے تاکہ جو کوتاہی یا غلطی اور گناہ ان سے جانے یا انجانے میں سرزد ہوجاتے ہیں ان پر وہ اللہ کے حضور توبہ واستغفار کرلیں۔ تاکہ انسانوں کے کبیرہ صغیرہ گناہوں کو مٹا کر انھیں داخل جنت کیا جاسکے۔ کیونکہ انسان کا اصل ٹھکانہ تو جنت ہی ہے جہاں سے وہ اس دنیا میں عارضی طور پر بھیجا گیا ہے۔

Deeds, Accountability and Day of Judgement

 اعمال کی جواب دہی اور سزاو جزا

انسان دنیا میں جو بھی اچھے یا برے اعمال کرتا ہے اس کی جزا یا سزا اسے قیامت کے دن مل کررہے گی۔ اسی لئے دنیا کو آخرت کی کھیتی کہا گیا ہے۔کیونکہ رائی کے دانے کے برابر اعمال کو بھی ترازو میں تولا جائے گا اور اس شخص کو اس کی جزا یا سزا دی جائے گی۔ اسی حوالے سے چند ارشادات خداوندی ہیں کہ
ا۔ مرد ہوں یا عورت ہوں جس نے بھی نیک عمل کیا۔بشرطیکہ وہ مومن ہوتو ہم اسے ضرور پاکیزہ زندگی کے ساتھ زندہ رکھیں گے۔اور ہم ضرور ان کو ان کے کئے ہوئے نیک اعمال کا اجر عطا فرمائیں گے۔ (النحل۔۷۹)
ب۔ جان لو کہ دنیا کی زندگی تو محض کھیل تماشہ ہے۔اور زینت ہے اور ایک دوسرے پر فخر کرنا ہے۔ (الحدید۔ ۰۲)
ج۔ دوڑو! اپنے رب کی کی مغفرت کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان اور زمین کی پنہائی کی مثل ہے۔ (الحدید۔ ۱۲)
س۔میں تمام (کافر) جنات اور انسانوں سے ضرور جہنم کو بھر دوں گا۔ (ہود۔۹۱۔ السجدہ۔ ۳۱)
ش۔ اللہ تعالی کسی پر رائی کے دانے کے ایک ذرہ کے برابر بھی ظلم نہیں کرے گا۔ (النساء۔ ۰۴)
ص۔ ائے ابلیس! میں تجھ سے اور تیرے تمام متبعین سے جہنم کوو بھر دوں گا۔ (ص۔ ۵۸)
ض۔ آپ کا رب کسی پر بھی ظلم نہیں کرے گا۔ (الکہف۔ ۹۴)
ط۔ بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کئے تو بے شک ہم ان کے نیک اعمال کے اجر کو ضائع نہیں کریں گے۔ (الکہف۔ ۰۳)
ظ۔ جب تک ہم رسولوں کو نہ بھیج دیں۔ہم کفار پر عذاب بھیجنے والے نہیں ہیں۔(بنی اسرائیل۔ ۵۱)
ع۔ کیا جولوگ برے کام کرتے ہیں۔انھوں نے یہ گمان کرلیا ہے کہ! ہم ان کو ان لوگوں کی مثل کردیں گے جو ایمان لائے۔اور انھوں نے   نیک اعمال کئے۔ان کا مرنا اور جینا برابر ہو جائے گا۔۔وہ لوگ یہ کیسا برا فیصلہ کررہے ہیں۔ (الجاثیہ۔ ۱۲)

قرآن کریم کی روشنی میں عقیدہ آخرت کی اہمیت

Importance of Akhira and Day of Judgement in light of Holy Quran

قرآن کریم میں جابجا عقیدہ ااخرت کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ انسان اس دنیا کی گہماگہمی میں دنیا میں آنے کے مقصد کو نہ بھول جائے چنانچہ اسی حوالے سے ارشادخداوندی ہے کہ
ا۔ اللہ کے اذن کے بغیر کسی نفس کے لئے مرنا ممکین نہیں۔(آل عمران۔ ۵۴۱)
ب۔ اس دن سے ڈرو جس دن تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (البقرہ۔ ۱۸۲)
ج۔ قیامت تم پر اچانک ہی آئے گی۔(اعراف۔ ۷۸۱)
س۔اور ہم نے کتنی ہی بستیوں کو ہلاک کردیا۔پس ان پر ہمارا عذاب اچانک رات کے وقت آیا۔یا جس وقت وہ دوپہر کو سو رہے تھے۔ جب ان پر ہمارا عذاب آیا تو اس وقت ان کی یہی چیخ و پکار تھی کہ ہم ظالم تھے۔ (اعراف۔۴۔۵)
ش۔ اللہ کی گرفت بہت مضبوط ہے اور اس کا عذاب بہت سخت ہے۔ (النساء۔ ۴۸)
۶ص۔ قیامت کے دن سب زمینیں اس کی مٹھی میں ہوں گی۔اور تمام آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔(الزمر۔ ۷۶)
  ض۔ کفار ہمارے پاس جو بھی اعمال لے کر آئیں گے۔ہم ان کو فضاء میں بکھرے ہوئے غبار کے ذرے بنادیں گے۔(المائدہ۔ ۵)
ع۔ کفار کے عذاب میں نہ تو تخفیف کی جائے گی اور نہ ہی ان کی مدد کی جائے گی۔ (البقرہ۔ ۶۷)
غ۔ وہ مردوں کو زندہ کرنے پر ضرور قادر ہے۔کیوں نہیں بے شک وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (الاحقاف۔ ۳۳)
ف۔ اگر تم تعجب کرو تو باعث تعجب تو ان کا یہ قول ہے کہ! کیا ہم مٹی ہوجانے کے بعد ازسر نو پیدا ہوں گے؟ یہی وہ لوگ ہیں کہ جنھوں نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا۔ اور یہی وہ لوگ ہیں کہ جن کی گردنوں میں طوق ہوں گے۔ اور یہی دوزخی ہیں۔ جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔(رعد۔ ۵)
ق۔ (یہود کہتے ہیں کہ) ہمیں دوزخ کی آگ صرف چند دن چھوئے گی۔ (آل عمران۔۴۲)
ک۔ مرد ہوں یا عورت ہوں جس نے بھی نیک عمل کیا۔بشرطیکہ وہ مومن ہوتو ہم اسے ضرور پاکیزہ زندگی کے ساتھ زندہ رکھیں گے۔اور ہم ضرور ان کو ان کے کئے ہوئے نیک اعمال کا اجر عطا فرمائیں گے۔(النحل۔۷۹)

Importance of Akhira and Day of Judgement in light of Ahadith

احادیث نبوی ﷺ کی روشنی میں عقیدہ آخرت کی اہمیت

آخرت کی اہمیت کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ کئی احادیث مبارکہ ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔
ا۔ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔
ب۔ جہنم کی آگ سے زیادہ کوئی شے خطرناک نہیں۔
ج۔ جو لوگ جنت میں جائیں گے وہ وہاں ہمیشہ خوش رہیں گے۔
س۔ جنت دکھ اور مصائب میں گھری ہوئی ہے۔
ش۔ جہنم خواہش نفس میں گھری ہوئی ہے۔
ص۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ! جب کوئی شخص انتقال کرجاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے۔ سوائے تین اعمال کہ اس کا نیک عمل۔ اس کانفع بخش علم اور صالح اولاد (مسلم۔ رقم الحدیث۔ ۱۳۶۱)

ض۔ حضرت جریر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ! جس شخص نے اسلام میں کسی نیک طریقہ کو ایجاد کیا اس کو اپنی نیکیوں کا بھی اجر ملے گا اور جن لوگوں نے اس نیکی پر عمل کیا ان کا اجر بھی اس کو ملے گا (مسلم۔ رقم الحدیث۔ ۷۱۰۱)

سو جس نے اپنی اولاد کو نماز سیکھائی،اس کی نمازوں کا اجر بھی اس کو ملے گا۔ جس نے اپنی اولاد کو صدقہ اور خیرات کرنا سیکھایا،جس نے دینی مسائل سیکھائے یا جس نے کوئی دینی کتاب لکھی تو اس کو پڑھ کر عمل کرنے والوں کو بھی اجر ملے گا اور لکھنے والے کو بھی اجر ملے گا۔

ط۔ حضرت ابو اسید مالک بن ربیعہ الساعدی بیان کرتے ہیں کہ! بنو سلمہ کے ایک شخص نے پو چھا کہ یا رسول اللہ ﷺ میرے ماں باپ کے انتقال کے بعد کیا کوئی ایسی نیکی ہے جو میں ان کے ساتھ کر سکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں، تم ان کی نماز جنازہ پڑھو۔ ان کے لئے مغفرت طلب کرو، ان کی وفات کے بعد ان کے کئے ہوئے وعدوں کو پورا کرو، جن رشتہ داروں کے ساتھ وہ نیکی کیا کرتے تھے،ان کے ساتھ نیکی کرو اور ان کے دوستوں کی تکریم کرو (سنن ابو داؤد۔ رقم الحدیث۔ ۲۴۱۵)

حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ! گزشتہ امتوں کے مقابلہ میں تمھاری مدت اتنی ہے جیسے عصر کی نماز سے غروب آفتاب تک کا وقت ہو۔
(مجمع الزاوئد۔ ج۔ ۰۱۔ ص۔ ۱۱۳)
 حضرت بریدہ بیان کرتے ہیں کہ! رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ! مجھے اور قیامت کو ان دو انگلیوں کی مثل ساتھ ساتھ بھیجا گیا ہے۔آپ ﷺ نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کو ساتھ ساتھ ملا کر فرمایا (مسند احمد۔ ج۔ ۵۔ ص۔ ۸۴۳)

انفرادی اور اجتماعی خرابیوں کو دور کرنے میں عقیدہ آخرت کے اثرات

 عقیدہ آخرت کے انفرادی زندگی پر اثرات

Impact of Belief in Akhira and Day of Judgement on an Individual

انسان میں جب یہ یقین کامل ہو کہ ایک دن ہمیں یہاں سے جانا ہے تو انسان اسلام کی حدود میں رہنے کی کوشش کرتا ہے۔کیونکہ وہ جانتا کہ اس کے ہر عمل سے متعلق باز پرس کی جائے گی۔ وہ اس دنیا کو ہی سب کچھ نہیں سمجھ لیتا ہے۔ لیکن اگر یہ عقیدہ معاشرے میں کمزور پڑ جائے تو معاشرہ طرح طرح کی برائی کی آماج گاہ بن جاتا ہے۔ ظلم و ستم،ناانصافی،دھوکہ، جھوٹ سرکشی، نفرت، عداوت،قتل وغارت گری وغیرہ پھلنے پھولنے لگتی ہے۔

چنانچہ عقیدہ آخرت کے عقیدے کی مضبوطی سے افراد کی کردار سازی ہوتی ہے اور اس میں درج ذیل خصوصیات پیدا ہوتی ہیں۔

ا۔ وہ گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔
ب۔ فرد میں نیکی اور عبادات کا شوق پیدا ہوتا ہے۔
ج۔ وہ بے حیائی اور بدکاری سے بچتا ہے۔
س۔ دنیا کی محبت اس کے دل میں کم ہوتی ہے جبکہ آخرت کا ڈر اور اس کی تیاری اس کے پیش نظر رہتی ہے۔
ش۔ فرد کا تعلق اپنے رب سے مضبوط ہوتا ہے۔اور اس کے دل میں خشیت الہی پیدا ہوتی ہے۔
ص۔ فرد کا توکل اللہ پر بڑھتا جاتا ہے جبکہ اس کا بھروسہ دنیا اور اہل دنیا پر سے کم ہوجاتا ہے۔
ض۔ فرد اپنے گناہوں پر شرمندہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ توبہ اور استغفار کی کثرت کرتا ہے۔
ط۔ اللہ کی مخلوق سے پیار اور ہمدردی کرتا ہے اور ان کے کام آنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔
ظ۔ فرد اللہ کے بتائے ہوئے قاعدے قوانین کی پاسداری کرتا ہے اور ہر برے کام سے رکتا ہے۔
ع۔ فرد میں صبر وشکر کے جذبات بڑھتے ہیں اور وہ اللہ کی نعمتوں پر اللہ کا شکر گزار ہوتا ہے جبکہ تکالیف پر صبر کرتے ہوئے اللہ سے مدد طلب کرتا ہے۔
غ۔ فر د ہر حال میں راضی بہ رضا رہتا ہے اور اللہ اس کو جس حال میں رکھتا ہے اس حال پر وہ خوش اور مطمئن رہتا ہے۔

Effects of belief in Akhirah and Day of judgement on Society

عقیدہ آخرت کے اجتماعی زندگی پر اثرات

ا۔ عقیدہ آخرت کے اجتماعی زندگی پر بھی مثبت اور گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔
ب۔ افراد میں اجتماعی عبادات کا شعور اور شوق بیدار ہوتا ہے۔
ج۔ گناہوں سے بچنے کی ترغیب پیدا ہوتی ہے۔اور افراد میں سماجی طور پر ایک دوسرے کی کردار سازی اور نیکی کی تلقین اور برائیوں سے روکنے کیاچھی عادت پیدا ہوتی ہے۔
س۔ سماج میں اسلامی اقدار کو فروغ حاصل وہتا ہے۔ نوجوانوں اور بچوں کے اخلاق پر نظر رکھی جاتی ہے۔
ش۔ معاشرتی سطح پر خدمت خلق اور مخلوق خدا کے ساتھ محبت اوران کی خدمت کے شعور کو اجاگر کیا جاتا ہے۔
ص۔افراد کبیرہ اور صغیرہ گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ض۔ جس سماج میں عقیدہ آخرت مضبوط بنیادوں پر استوار ہوتا ہے وہاں گناہ اور جرائم کی شرح کم ہوتی ہےThe Concept of the Life Hereafter and Day of Judgement اسلام میں عقیدہ آخرت و قیامت

Shaheen MS01 mins

This article defines the meaning of belief in the hereafter and day of judgement in Islam and discusses its importance in personal and collective life. It also differentiates between  

The Literal meaning of Akhirah: آخرت کے لغوی معنی

 آخرت کے لغوی معنی ہیں بعد میں ہونے والی یاآخری چیز۔جبکہ آخرت کے مقابلے میں لفظ دنیا ہے جس کے معنی قریب کی چیز کے ہیں۔

 آخرت کے اصطلاحی تعریف

شریعت کی اصطلاح میں دنیا کی ہر شے فانی ہے اور ایک دن ایسا آئے گا جب ہر شے فنا ہوجائے گی اسی طرح سے انسان بھی فنا اور ختم ہوجائے گا کیونکہ انسان کی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے لہٰذا اس کا جسم مٹی میں مل کر مٹی ہاجائے گا جبکہ اس کی روح آسمان میں چلی جائے گی۔ اسی حوالے سے ارشاد خداوندی ہے کہ
۔ متقی ہیں وہ لوگ جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ (البقرہ۔ ۴)

دنیا اور آخرت کا فرق

 ا۔ دنیا قریب کی چیز ہے ، آخرت بعد کی اور دُور کی چیز ہے۔

ب۔ دنیا امتحان کی جگہ ہے۔

ج آخرت جزا یا سزا کی جگہ ہے۔

ر۔ دنیا کی زندگی عارضی ہے۔

س۔ آخرت کی زندگی ہمیشہ ہمیشہ کی ہے۔

ش۔ دنیا کی نعمتیں ختم ہوجانے والی ہیں۔ ۰۔ آخرت کی نعمتیں کبھی ختم نہ ہوں گی۔

ص۔ دنیا میں انسان اچھے یا برے اعمال کرتا ہے۔

ض۔ آخرت میں ان اچھے یا برے اعمال کے بدلے میں جنت یا جہنم ہوگی۔

آخرت کے مختلف نام

۔آخرت کے درج ذیل چند نام ہیں۔
(The Last Day)ا۔ الیوم الاخر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دنیا کا آخری دن۔۔۔۔۔۔۔۔۔..۔۔
(The Day of Grief) ب۔ یوم الحسرۃ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حسر ت اور افسوس کا دن۔۔۔۔۔
(The Day of Judgement)ج۔ یوم الفصل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فیصلے کادن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(The Day of Reality) ر۔ یوم الحق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سچا دن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(The Day of Distress)س۔ یوم عسیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک سخت دن۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(The Promised Day)ش۔ الیوم الموعود۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جس دن کا وعدہ کیا گیا تھا۔۔۔۔۔
(The Day of Calling and Wailing)ص۔ الیوم التناد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چیخ و پکار کا دن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وقوع قیامت،اعمال کی جواب دہی اور جزاو سزا

 Day of judgement, accountability، reward and punishment

عقیدہ آخرت کی اہمیت اور وقوع قیامت

یوم آخرت سے مراد موت کے بعد کی زندگی ہے۔ قرآن کریم کا شاید ہی کوئی صفحہ ایسا ہو جس میں عقیدہ آخرت سے متعلق کوئی اشارہ نہ پایا جاتا ہو۔ مثلاََ۔ روز قیامت،حساب کتاب، جنت جہنم، قبر، جزا سزا، مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنا، جنت کی نعمتوں کا ذکر،دوزخ کی سختیوں کا ذکر، کامیاب اور ناکام لوگوں کے قصے،گزشتہ اقوام پر عذاب کے واقعات وغیرہ۔

اسلام کے تصور آخرت کے مطابق یہ دنیا فانی ہے اور ایک دن یہ دنیا اور اس میں بسنے والی تمام مخلوق فنا ہوجائے گی۔پھر صور پھونکا جائے گا۔

اسی حوالے سے ارشادات خداوندی ہیں کہ
ا۔ جس دن صور پھونکا جائے گا اور اس دن اسی کی حکومت ہوگی۔(الانعام۔ ۳۷)
 ب۔ جس دن صور پھونکا جائے گا تو جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔سوائے جس کو اللہ چاہے سب گھبرا جائیں گے۔(النمل۔ ۷۸)
 ج۔ جس دن صور پھونکا جائے گا ہم گناہ گاروں کو اس دن نیلی آنکھوں کے ساتھ اکھٹا کریں گے۔ (طہ۔ ۲۰۱)
۔ جس دن صور پھونکا جائے گا۔ تو تم فوج در فوج چلے آو گے۔ (النباء۔ ۸۱)
ر۔ جب رسول اللہ ﷺ نے کفار سے مکہ سے یہ کہا کہ! یہ دنیا فانی ہے۔اور یہاں سے ایک دن ہم چلے جائیں گے اور روز قیامت ہم دوبارہ اٹھیں گے۔تو کفا ر مکہ نے یہ کہا کہ! بھلا ہم اور ہمارے باپ دادا جو کہ مٹی ہو چکیں وہ بھلا دوبارہ کیسے اٹھائے جائیں گے۔

اس پر ارشاد خداوندی ہوا کہ

ا۔ انھوں نے کہا کہ! جب ہڈیاں بوسیدہ ہوکرگل جائیں گی۔ تو ان کو کون زندہ کرے گا؟آپ ﷺ کہیے کہ! ان کو وہی زندہ کرے گا جس نے انھیں پہلی بار پیدا کیا تھا۔اور وہ ہر پیدائش کو خوب جاننے والا ہے۔(یسین۔ ۸۷۔۹۷)
 ب۔تو کیا ہم پہلی بار پیدا کرکے تھک گئے ہیں؟ (نہیں) بلکہ وہ اپنے ازسر نو پیدا ہونے کے متعلق شک میں مبتلا ہیں۔ (ق۔ ۵۱)

ج۔ عقیدہ آخرت پر ایمان لانا تمام مسلمانوں پر لازم ہے اور اس کے بغیر ایمان نامکمل ہے۔ انسان اس دنیا میں عارضی طور پر بھیجا گیا ہے تاکہ دنیا میں اچھے اعمال کرکے اپنے آخریٹھکانے پر کامیابی سے ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی کو بہترین طریقے سے بسر کرے۔

 س۔ تاہم خیر اور شر کی قوتیں ہر وقت انسان کے ساتھ رہتی ہیں جبکہ ایک لاکھ چوبیش ہزار پیغمبروں کو د میں بھیجنے کا اصل مقصد بھی یہی تھا کہ وہ انسانوں کو یہ بتائیں کہ اپنے شر پر قابو رکھتے ہوئے خیر کو پھیلائیں اور اللہ سے اپنے تعلق کو مضبوط بنیادوں پر استوار کریں۔

اگرچہ تمام پیغمبروں کی دنیا میں آمد، الہامی کتب کے نزول اور عبادات و قاعدے قوانین کی پابندی کے پیچھے دراصل ااخرت کی کامیاب زندگی کا حصول ہے۔ اسی لئے اللہ نے اپنے بندوں کے لئے توبہ کا دروازہ بھی کھول دیا ہے تاکہ جو کوتاہی یا غلطی اور گناہ ان سے جانے یا انجانے میں سرزد ہوجاتے ہیں ان پر وہ اللہ کے حضور توبہ واستغفار کرلیں۔ تاکہ انسانوں کے کبیرہ صغیرہ گناہوں کو مٹا کر انھیں داخل جنت کیا جاسکے۔ کیونکہ انسان کا اصل ٹھکانہ تو جنت ہی ہے جہاں سے وہ اس دنیا میں عارضی طور پر بھیجا گیا ہے۔

Deeds, Accountability and Day of Judgement

 اعمال کی جواب دہی اور سزاو جزا

انسان دنیا میں جو بھی اچھے یا برے اعمال کرتا ہے اس کی جزا یا سزا اسے قیامت کے دن مل کررہے گی۔ اسی لئے دنیا کو آخرت کی کھیتی کہا گیا ہے۔کیونکہ رائی کے دانے کے برابر اعمال کو بھی ترازو میں تولا جائے گا اور اس شخص کو اس کی جزا یا سزا دی جائے گی۔ اسی حوالے سے چند ارشادات خداوندی ہیں کہ
ا۔ مرد ہوں یا عورت ہوں جس نے بھی نیک عمل کیا۔بشرطیکہ وہ مومن ہوتو ہم اسے ضرور پاکیزہ زندگی کے ساتھ زندہ رکھیں گے۔اور ہم ضرور ان کو ان کے کئے ہوئے نیک اعمال کا اجر عطا فرمائیں گے۔ (النحل۔۷۹)
ب۔ جان لو کہ دنیا کی زندگی تو محض کھیل تماشہ ہے۔اور زینت ہے اور ایک دوسرے پر فخر کرنا ہے۔ (الحدید۔ ۰۲)
ج۔ دوڑو! اپنے رب کی کی مغفرت کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان اور زمین کی پنہائی کی مثل ہے۔ (الحدید۔ ۱۲)
س۔میں تمام (کافر) جنات اور انسانوں سے ضرور جہنم کو بھر دوں گا۔ (ہود۔۹۱۔ السجدہ۔ ۳۱)
ش۔ اللہ تعالی کسی پر رائی کے دانے کے ایک ذرہ کے برابر بھی ظلم نہیں کرے گا۔ (النساء۔ ۰۴)
ص۔ ائے ابلیس! میں تجھ سے اور تیرے تمام متبعین سے جہنم کوو بھر دوں گا۔ (ص۔ ۵۸)
ض۔ آپ کا رب کسی پر بھی ظلم نہیں کرے گا۔ (الکہف۔ ۹۴)
ط۔ بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کئے تو بے شک ہم ان کے نیک اعمال کے اجر کو ضائع نہیں کریں گے۔ (الکہف۔ ۰۳)
ظ۔ جب تک ہم رسولوں کو نہ بھیج دیں۔ہم کفار پر عذاب بھیجنے والے نہیں ہیں۔(بنی اسرائیل۔ ۵۱)
ع۔ کیا جولوگ برے کام کرتے ہیں۔انھوں نے یہ گمان کرلیا ہے کہ! ہم ان کو ان لوگوں کی مثل کردیں گے جو ایمان لائے۔اور انھوں نے   نیک اعمال کئے۔ان کا مرنا اور جینا برابر ہو جائے گا۔۔وہ لوگ یہ کیسا برا فیصلہ کررہے ہیں۔ (الجاثیہ۔ ۱۲)

قرآن کریم کی روشنی میں عقیدہ آخرت کی اہمیت

Importance of Akhira and Day of Judgement in light of Holy Quran

قرآن کریم میں جابجا عقیدہ ااخرت کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ انسان اس دنیا کی گہماگہمی میں دنیا میں آنے کے مقصد کو نہ بھول جائے چنانچہ اسی حوالے سے ارشادخداوندی ہے کہ
ا۔ اللہ کے اذن کے بغیر کسی نفس کے لئے مرنا ممکین نہیں۔(آل عمران۔ ۵۴۱)
ب۔ اس دن سے ڈرو جس دن تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (البقرہ۔ ۱۸۲)
ج۔ قیامت تم پر اچانک ہی آئے گی۔(اعراف۔ ۷۸۱)
س۔اور ہم نے کتنی ہی بستیوں کو ہلاک کردیا۔پس ان پر ہمارا عذاب اچانک رات کے وقت آیا۔یا جس وقت وہ دوپہر کو سو رہے تھے۔ جب ان پر ہمارا عذاب آیا تو اس وقت ان کی یہی چیخ و پکار تھی کہ ہم ظالم تھے۔ (اعراف۔۴۔۵)
ش۔ اللہ کی گرفت بہت مضبوط ہے اور اس کا عذاب بہت سخت ہے۔ (النساء۔ ۴۸)
۶ص۔ قیامت کے دن سب زمینیں اس کی مٹھی میں ہوں گی۔اور تمام آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔(الزمر۔ ۷۶)
  ض۔ کفار ہمارے پاس جو بھی اعمال لے کر آئیں گے۔ہم ان کو فضاء میں بکھرے ہوئے غبار کے ذرے بنادیں گے۔(المائدہ۔ ۵)
ع۔ کفار کے عذاب میں نہ تو تخفیف کی جائے گی اور نہ ہی ان کی مدد کی جائے گی۔ (البقرہ۔ ۶۷)
غ۔ وہ مردوں کو زندہ کرنے پر ضرور قادر ہے۔کیوں نہیں بے شک وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (الاحقاف۔ ۳۳)
ف۔ اگر تم تعجب کرو تو باعث تعجب تو ان کا یہ قول ہے کہ! کیا ہم مٹی ہوجانے کے بعد ازسر نو پیدا ہوں گے؟ یہی وہ لوگ ہیں کہ جنھوں نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا۔ اور یہی وہ لوگ ہیں کہ جن کی گردنوں میں طوق ہوں گے۔ اور یہی دوزخی ہیں۔ جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔(رعد۔ ۵)
ق۔ (یہود کہتے ہیں کہ) ہمیں دوزخ کی آگ صرف چند دن چھوئے گی۔ (آل عمران۔۴۲)
ک۔ مرد ہوں یا عورت ہوں جس نے بھی نیک عمل کیا۔بشرطیکہ وہ مومن ہوتو ہم اسے ضرور پاکیزہ زندگی کے ساتھ زندہ رکھیں گے۔اور ہم ضرور ان کو ان کے کئے ہوئے نیک اعمال کا اجر عطا فرمائیں گے۔(النحل۔۷۹)

Importance of Akhira and Day of Judgement in light of Ahadith

احادیث نبوی ﷺ کی روشنی میں عقیدہ آخرت کی اہمیت

آخرت کی اہمیت کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ کئی احادیث مبارکہ ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔
ا۔ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔
ب۔ جہنم کی آگ سے زیادہ کوئی شے خطرناک نہیں۔
ج۔ جو لوگ جنت میں جائیں گے وہ وہاں ہمیشہ خوش رہیں گے۔
س۔ جنت دکھ اور مصائب میں گھری ہوئی ہے۔
ش۔ جہنم خواہش نفس میں گھری ہوئی ہے۔
ص۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ! جب کوئی شخص انتقال کرجاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے۔ سوائے تین اعمال کہ اس کا نیک عمل۔ اس کانفع بخش علم اور صالح اولاد (مسلم۔ رقم الحدیث۔ ۱۳۶۱)

ض۔ حضرت جریر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ! جس شخص نے اسلام میں کسی نیک طریقہ کو ایجاد کیا اس کو اپنی نیکیوں کا بھی اجر ملے گا اور جن لوگوں نے اس نیکی پر عمل کیا ان کا اجر بھی اس کو ملے گا (مسلم۔ رقم الحدیث۔ ۷۱۰۱)

سو جس نے اپنی اولاد کو نماز سیکھائی،اس کی نمازوں کا اجر بھی اس کو ملے گا۔ جس نے اپنی اولاد کو صدقہ اور خیرات کرنا سیکھایا،جس نے دینی مسائل سیکھائے یا جس نے کوئی دینی کتاب لکھی تو اس کو پڑھ کر عمل کرنے والوں کو بھی اجر ملے گا اور لکھنے والے کو بھی اجر ملے گا۔

ط۔ حضرت ابو اسید مالک بن ربیعہ الساعدی بیان کرتے ہیں کہ! بنو سلمہ کے ایک شخص نے پو چھا کہ یا رسول اللہ ﷺ میرے ماں باپ کے انتقال کے بعد کیا کوئی ایسی نیکی ہے جو میں ان کے ساتھ کر سکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں، تم ان کی نماز جنازہ پڑھو۔ ان کے لئے مغفرت طلب کرو، ان کی وفات کے بعد ان کے کئے ہوئے وعدوں کو پورا کرو، جن رشتہ داروں کے ساتھ وہ نیکی کیا کرتے تھے،ان کے ساتھ نیکی کرو اور ان کے دوستوں کی تکریم کرو (سنن ابو داؤد۔ رقم الحدیث۔ ۲۴۱۵)

حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ! گزشتہ امتوں کے مقابلہ میں تمھاری مدت اتنی ہے جیسے عصر کی نماز سے غروب آفتاب تک کا وقت ہو۔
(مجمع الزاوئد۔ ج۔ ۰۱۔ ص۔ ۱۱۳)
 حضرت بریدہ بیان کرتے ہیں کہ! رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ! مجھے اور قیامت کو ان دو انگلیوں کی مثل ساتھ ساتھ بھیجا گیا ہے۔آپ ﷺ نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کو ساتھ ساتھ ملا کر فرمایا (مسند احمد۔ ج۔ ۵۔ ص۔ ۸۴۳)

انفرادی اور اجتماعی خرابیوں کو دور کرنے میں عقیدہ آخرت کے اثرات

 عقیدہ آخرت کے انفرادی زندگی پر اثرات

Impact of Belief in Akhira and Day of Judgement on an Individual

انسان میں جب یہ یقین کامل ہو کہ ایک دن ہمیں یہاں سے جانا ہے تو انسان اسلام کی حدود میں رہنے کی کوشش کرتا ہے۔کیونکہ وہ جانتا کہ اس کے ہر عمل سے متعلق باز پرس کی جائے گی۔ وہ اس دنیا کو ہی سب کچھ نہیں سمجھ لیتا ہے۔ لیکن اگر یہ عقیدہ معاشرے میں کمزور پڑ جائے تو معاشرہ طرح طرح کی برائی کی آماج گاہ بن جاتا ہے۔ ظلم و ستم،ناانصافی،دھوکہ، جھوٹ سرکشی، نفرت، عداوت،قتل وغارت گری وغیرہ پھلنے پھولنے لگتی ہے۔

چنانچہ عقیدہ آخرت کے عقیدے کی مضبوطی سے افراد کی کردار سازی ہوتی ہے اور اس میں درج ذیل خصوصیات پیدا ہوتی ہیں۔

ا۔ وہ گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔
ب۔ فرد میں نیکی اور عبادات کا شوق پیدا ہوتا ہے۔
ج۔ وہ بے حیائی اور بدکاری سے بچتا ہے۔
س۔ دنیا کی محبت اس کے دل میں کم ہوتی ہے جبکہ آخرت کا ڈر اور اس کی تیاری اس کے پیش نظر رہتی ہے۔
ش۔ فرد کا تعلق اپنے رب سے مضبوط ہوتا ہے۔اور اس کے دل میں خشیت الہی پیدا ہوتی ہے۔
ص۔ فرد کا توکل اللہ پر بڑھتا جاتا ہے جبکہ اس کا بھروسہ دنیا اور اہل دنیا پر سے کم ہوجاتا ہے۔
ض۔ فرد اپنے گناہوں پر شرمندہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ توبہ اور استغفار کی کثرت کرتا ہے۔
ط۔ اللہ کی مخلوق سے پیار اور ہمدردی کرتا ہے اور ان کے کام آنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔
ظ۔ فرد اللہ کے بتائے ہوئے قاعدے قوانین کی پاسداری کرتا ہے اور ہر برے کام سے رکتا ہے۔
ع۔ فرد میں صبر وشکر کے جذبات بڑھتے ہیں اور وہ اللہ کی نعمتوں پر اللہ کا شکر گزار ہوتا ہے جبکہ تکالیف پر صبر کرتے ہوئے اللہ سے مدد طلب کرتا ہے۔
غ۔ فر د ہر حال میں راضی بہ رضا رہتا ہے اور اللہ اس کو جس حال میں رکھتا ہے اس حال پر وہ خوش اور مطمئن رہتا ہے۔

Effects of belief in Akhirah and Day of judgement on Society

عقیدہ آخرت کے اجتماعی زندگی پر اثرات

ا۔ عقیدہ آخرت کے اجتماعی زندگی پر بھی مثبت اور گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔
ب۔ افراد میں اجتماعی عبادات کا شعور اور شوق بیدار ہوتا ہے۔
ج۔ گناہوں سے بچنے کی ترغیب پیدا ہوتی ہے۔اور افراد میں سماجی طور پر ایک دوسرے کی کردار سازی اور نیکی کی تلقین اور برائیوں سے روکنے کیاچھی عادت پیدا ہوتی ہے۔
س۔ سماج میں اسلامی اقدار کو فروغ حاصل وہتا ہے۔ نوجوانوں اور بچوں کے اخلاق پر نظر رکھی جاتی ہے۔
ش۔ معاشرتی سطح پر خدمت خلق اور مخلوق خدا کے ساتھ محبت اوران کی خدمت کے شعور کو اجاگر کیا جاتا ہے۔
ص۔افراد کبیرہ اور صغیرہ گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ض۔ جس سماج میں عقیدہ آخرت مضبوط بنیادوں پر استوار ہوتا ہے وہاں گناہ اور جرائم کی شرح کم ہوتی ہےThe Concept of the Life Hereafter and Day of Judgement اسلام میں عقیدہ آخرت و قیامت

Shaheen MS01 mins

This article defines the meaning of belief in the hereafter and day of judgement in Islam and discusses its importance in personal and collective life. It also differentiates between  

The Literal meaning of Akhirah: آخرت کے لغوی معنی

 آخرت کے لغوی معنی ہیں بعد میں ہونے والی یاآخری چیز۔جبکہ آخرت کے مقابلے میں لفظ دنیا ہے جس کے معنی قریب کی چیز کے ہیں۔

 آخرت کے اصطلاحی تعریف

شریعت کی اصطلاح میں دنیا کی ہر شے فانی ہے اور ایک دن ایسا آئے گا جب ہر شے فنا ہوجائے گی اسی طرح سے انسان بھی فنا اور ختم ہوجائے گا کیونکہ انسان کی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے لہٰذا اس کا جسم مٹی میں مل کر مٹی ہاجائے گا جبکہ اس کی روح آسمان میں چلی جائے گی۔ اسی حوالے سے ارشاد خداوندی ہے کہ
۔ متقی ہیں وہ لوگ جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ (البقرہ۔ ۴)

دنیا اور آخرت کا فرق

 ا۔ دنیا قریب کی چیز ہے ، آخرت بعد کی اور دُور کی چیز ہے۔

ب۔ دنیا امتحان کی جگہ ہے۔

ج آخرت جزا یا سزا کی جگہ ہے۔

ر۔ دنیا کی زندگی عارضی ہے۔

س۔ آخرت کی زندگی ہمیشہ ہمیشہ کی ہے۔

ش۔ دنیا کی نعمتیں ختم ہوجانے والی ہیں۔ ۰۔ آخرت کی نعمتیں کبھی ختم نہ ہوں گی۔

ص۔ دنیا میں انسان اچھے یا برے اعمال کرتا ہے۔

ض۔ آخرت میں ان اچھے یا برے اعمال کے بدلے میں جنت یا جہنم ہوگی۔

آخرت کے مختلف نام

۔آخرت کے درج ذیل چندنام ہیں۔
(The Last Day)ا۔ الیوم الاخر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دنیا کا آخری دن۔۔۔۔۔۔۔۔۔..۔۔
(The Day of Grief) ب۔ یوم الحسرۃ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حسر ت اور افسوس کا دن۔۔۔۔۔
(The Day of Judgement)ج۔ یوم الفصل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فیصلے کادن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(The Day of Reality) ر۔ یوم الحق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سچا دن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(The Day of Distress)س۔ یوم عسیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک سخت دن۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(The Promised Day)ش۔ الیوم الموعود۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جس دن کا وعدہ کیا گیا تھا۔۔۔۔۔
(The Day of Calling and Wailing)ص۔ الیوم التناد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چیخ و پکار کا دن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وقوع قیامت،اعمال کی جواب دہی اور جزاو سزا

 Day of judgement, accountability، reward and punishment

عقیدہ آخرت کی اہمیت اور وقوع قیامت

یوم آخرت سے مراد موت کے بعد کی زندگی ہے۔ قرآن کریم کا شاید ہی کوئی صفحہ ایسا ہو جس میں عقیدہ آخرت سے متعلق کوئی اشارہ نہ پایا جاتا ہو۔ مثلاََ۔ روز قیامت،حساب کتاب، جنت جہنم، قبر، جزا سزا، مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنا، جنت کی نعمتوں کا ذکر،دوزخ کی سختیوں کا ذکر، کامیاب اور ناکام لوگوں کے قصے،گزشتہ اقوام پر عذاب کے واقعات وغیرہ۔

اسلام کے تصور آخرت کے مطابق یہ دنیا فانی ہے اور ایک دن یہ دنیا اور اس میں بسنے والی تمام مخلوق فنا ہوجائے گی۔پھر صور پھونکا جائے گا۔

اسی حوالے سے ارشادات خداوندی ہیں کہ
ا۔ جس دن صور پھونکا جائے گا اور اس دن اسی کی حکومت ہوگی۔(الانعام۔ ۳۷)
 ب۔ جس دن صور پھونکا جائے گا تو جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔سوائے جس کو اللہ چاہے سب گھبرا جائیں گے۔(النمل۔ ۷۸)
 ج۔ جس دن صور پھونکا جائے گا ہم گناہ گاروں کو اس دن نیلی آنکھوں کے ساتھ اکھٹا کریں گے۔ (طہ۔ ۲۰۱)
۔ جس دن صور پھونکا جائے گا۔ تو تم فوج در فوج چلے آو گے۔ (النباء۔ ۸۱)
ر۔ جب رسول اللہ ﷺ نے کفار سے مکہ سے یہ کہا کہ! یہ دنیا فانی ہے۔اور یہاں سے ایک دن ہم چلے جائیں گے اور روز قیامت ہم دوبارہ اٹھیں گے۔تو کفا ر مکہ نے یہ کہا کہ! بھلا ہم اور ہمارے باپ دادا جو کہ مٹی ہو چکیں وہ بھلا دوبارہ کیسے اٹھائے جائیں گے۔

اس پر ارشاد خداوندی ہوا کہ

ا۔ انھوں نے کہا کہ! جب ہڈیاں بوسیدہ ہوکرگل جائیں گی۔ تو ان کو کون زندہ کرے گا؟آپ ﷺ کہیے کہ! ان کو وہی زندہ کرے گا جس نے انھیں پہلی بار پیدا کیا تھا۔اور وہ ہر پیدائش کو خوب جاننے والا ہے۔(یسین۔ ۸۷۔۹۷)
 ب۔تو کیا ہم پہلی بار پیدا کرکے تھک گئے ہیں؟ (نہیں) بلکہ وہ اپنے ازسر نو پیدا ہونے کے متعلق شک میں مبتلا ہیں۔ (ق۔ ۵۱)

ج۔ عقیدہ آخرت پر ایمان لانا تمام مسلمانوں پر لازم ہے اور اس کے بغیر ایمان نامکمل ہے۔ انسان اس دنیا میں عارضی طور پر بھیجا گیا ہے تاکہ دنیا میں اچھے اعمال کرکے اپنے آخریٹھکانے پر کامیابی سے ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی کو بہترین طریقے سے بسر کرے۔

 س۔ تاہم خیر اور شر کی قوتیں ہر وقت انسان کے ساتھ رہتی ہیں جبکہ ایک لاکھ چوبیش ہزار پیغمبروں کو د میں بھیجنے کا اصل مقصد بھی یہی تھا کہ وہ انسانوں کو یہ بتائیں کہ اپنے شر پر قابو رکھتے ہوئے خیر کو پھیلائیں اور اللہ سے اپنے تعلق کو مضبوط بنیادوں پر استوار کریں۔

اگرچہ تمام پیغمبروں کی دنیا میں آمد، الہامی کتب کے نزول اور عبادات و قاعدے قوانین کی پابندی کے پیچھے دراصل ااخرت کی کامیاب زندگی کا حصول ہے۔ اسی لئے اللہ نے اپنے بندوں کے لئے توبہ کا دروازہ بھی کھول دیا ہے تاکہ جو کوتاہی یا غلطی اور گناہ ان سے جانے یا انجانے میں سرزد ہوجاتے ہیں ان پر وہ اللہ کے حضور توبہ واستغفار کرلیں۔ تاکہ انسانوں کے کبیرہ صغیرہ گناہوں کو مٹا کر انھیں داخل جنت کیا جاسکے۔ کیونکہ انسان کا اصل ٹھکانہ تو جنت ہی ہے جہاں سے وہ اس دنیا میں عارضی طور پر بھیجا گیا ہے۔

Deeds, Accountability and Day of Judgement

 اعمال کی جواب دہی اور سزاو جزا

انسان دنیا میں جو بھی اچھے یا برے اعمال کرتا ہے اس کی جزا یا سزا اسے قیامت کے دن مل کررہے گی۔ اسی لئے دنیا کو آخرت کی کھیتی کہا گیا ہے۔کیونکہ رائی کے دانے کے برابر اعمال کو بھی ترازو میں تولا جائے گا اور اس شخص کو اس کی جزا یا سزا دی جائے گی۔ اسی حوالے سے چند ارشادات خداوندی ہیں کہ
ا۔ مرد ہوں یا عورت ہوں جس نے بھی نیک عمل کیا۔بشرطیکہ وہ مومن ہوتو ہم اسے ضرور پاکیزہ زندگی کے ساتھ زندہ رکھیں گے۔اور ہم ضرور ان کو ان کے کئے ہوئے نیک اعمال کا اجر عطا فرمائیں گے۔ (النحل۔۷۹)
ب۔ جان لو کہ دنیا کی زندگی تو محض کھیل تماشہ ہے۔اور زینت ہے اور ایک دوسرے پر فخر کرنا ہے۔ (الحدید۔ ۰۲)
ج۔ دوڑو! اپنے رب کی کی مغفرت کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان اور زمین کی پنہائی کی مثل ہے۔ (الحدید۔ ۱۲)
س۔میں تمام (کافر) جنات اور انسانوں سے ضرور جہنم کو بھر دوں گا۔ (ہود۔۹۱۔ السجدہ۔ ۳۱)
ش۔ اللہ تعالی کسی پر رائی کے دانے کے ایک ذرہ کے برابر بھی ظلم نہیں کرے گا۔ (النساء۔ ۰۴)
ص۔ ائے ابلیس! میں تجھ سے اور تیرے تمام متبعین سے جہنم کوو بھر دوں گا۔ (ص۔ ۵۸)
ض۔ آپ کا رب کسی پر بھی ظلم نہیں کرے گا۔ (الکہف۔ ۹۴)
ط۔ بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کئے تو بے شک ہم ان کے نیک اعمال کے اجر کو ضائع نہیں کریں گے۔ (الکہف۔ ۰۳)
ظ۔ جب تک ہم رسولوں کو نہ بھیج دیں۔ہم کفار پر عذاب بھیجنے والے نہیں ہیں۔(بنی اسرائیل۔ ۵۱)
ع۔ کیا جولوگ برے کام کرتے ہیں۔انھوں نے یہ گمان کرلیا ہے کہ! ہم ان کو ان لوگوں کی مثل کردیں گے جو ایمان لائے۔اور انھوں نے   نیک اعمال کئے۔ان کا مرنا اور جینا برابر ہو جائے گا۔۔وہ لوگ یہ کیسا برا فیصلہ کررہے ہیں۔ (الجاثیہ۔ ۱۲)

قرآن کریم کی روشنی میں عقیدہ آخرت کی اہمیت

Importance of Akhira and Day of Judgement in light of Holy Quran

قرآن کریم میں جابجا عقیدہ ااخرت کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ انسان اس دنیا کی گہماگہمی میں دنیا میں آنے کے مقصد کو نہ بھول جائے چنانچہ اسی حوالے سے ارشادخداوندی ہے کہ
ا۔ اللہ کے اذن کے بغیر کسی نفس کے لئے مرنا ممکین نہیں۔(آل عمران۔ ۵۴۱)
ب۔ اس دن سے ڈرو جس دن تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (البقرہ۔ ۱۸۲)
ج۔ قیامت تم پر اچانک ہی آئے گی۔(اعراف۔ ۷۸۱)
س۔اور ہم نے کتنی ہی بستیوں کو ہلاک کردیا۔پس ان پر ہمارا عذاب اچانک رات کے وقت آیا۔یا جس وقت وہ دوپہر کو سو رہے تھے۔ جب ان پر ہمارا عذاب آیا تو اس وقت ان کی یہی چیخ و پکار تھی کہ ہم ظالم تھے۔ (اعراف۔۴۔۵)
ش۔ اللہ کی گرفت بہت مضبوط ہے اور اس کا عذاب بہت سخت ہے۔ (النساء۔ ۴۸)
۶ص۔ قیامت کے دن سب زمینیں اس کی مٹھی میں ہوں گی۔اور تمام آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔(الزمر۔ ۷۶)
  ض۔ کفار ہمارے پاس جو بھی اعمال لے کر آئیں گے۔ہم ان کو فضاء میں بکھرے ہوئے غبار کے ذرے بنادیں گے۔(المائدہ۔ ۵)
ع۔ کفار کے عذاب میں نہ تو تخفیف کی جائے گی اور نہ ہی ان کی مدد کی جائے گی۔ (البقرہ۔ ۶۷)
غ۔ وہ مردوں کو زندہ کرنے پر ضرور قادر ہے۔کیوں نہیں بے شک وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (الاحقاف۔ ۳۳)
ف۔ اگر تم تعجب کرو تو باعث تعجب تو ان کا یہ قول ہے کہ! کیا ہم مٹی ہوجانے کے بعد ازسر نو پیدا ہوں گے؟ یہی وہ لوگ ہیں کہ جنھوں نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا۔ اور یہی وہ لوگ ہیں کہ جن کی گردنوں میں طوق ہوں گے۔ اور یہی دوزخی ہیں۔ جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔(رعد۔ ۵)
ق۔ (یہود کہتے ہیں کہ) ہمیں دوزخ کی آگ صرف چند دن چھوئے گی۔ (آل عمران۔۴۲)
ک۔ مرد ہوں یا عورت ہوں جس نے بھی نیک عمل کیا۔بشرطیکہ وہ مومن ہوتو ہم اسے ضرور پاکیزہ زندگی کے ساتھ زندہ رکھیں گے۔اور ہم ضرور ان کو ان کے کئے ہوئے نیک اعمال کا اجر عطا فرمائیں گے۔(النحل۔۷۹)

Importance of Akhira and Day of Judgement in light of Ahadith

احادیث نبوی ﷺ کی روشنی میں عقیدہ آخرت کی اہمیت

آخرت کی اہمیت کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ کئی احادیث مبارکہ ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔
ا۔ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔
ب۔ جہنم کی آگ سے زیادہ کوئی شے خطرناک نہیں۔
ج۔ جو لوگ جنت میں جائیں گے وہ وہاں ہمیشہ خوش رہیں گے۔
س۔ جنت دکھ اور مصائب میں گھری ہوئی ہے۔
ش۔ جہنم خواہش نفس میں گھری ہوئی ہے۔
ص۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ! جب کوئی شخص انتقال کرجاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے۔ سوائے تین اعمال کہ اس کا نیک عمل۔ اس کانفع بخش علم اور صالح اولاد (مسلم۔ رقم الحدیث۔ ۱۳۶۱)

ض۔ حضرت جریر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ! جس شخص نے اسلام میں کسی نیک طریقہ کو ایجاد کیا اس کو اپنی نیکیوں کا بھی اجر ملے گا اور جن لوگوں نے اس نیکی پر عمل کیا ان کا اجر بھی اس کو ملے گا (مسلم۔ رقم الحدیث۔ ۷۱۰۱)

سو جس نے اپنی اولاد کو نماز سیکھائی،اس کی نمازوں کا اجر بھی اس کو ملے گا۔ جس نے اپنی اولاد کو صدقہ اور خیرات کرنا سیکھایا،جس نے دینی مسائل سیکھائے یا جس نے کوئی دینی کتاب لکھی تو اس کو پڑھ کر عمل کرنے والوں کو بھی اجر ملے گا اور لکھنے والے کو بھی اجر ملے گا۔

ط۔ حضرت ابو اسید مالک بن ربیعہ الساعدی بیان کرتے ہیں کہ! بنو سلمہ کے ایک شخص نے پو چھا کہ یا رسول اللہ ﷺ میرے ماں باپ کے انتقال کے بعد کیا کوئی ایسی نیکی ہے جو میں ان کے ساتھ کر سکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں، تم ان کی نماز جنازہ پڑھو۔ ان کے لئے مغفرت طلب کرو، ان کی وفات کے بعد ان کے کئے ہوئے وعدوں کو پورا کرو، جن رشتہ داروں کے ساتھ وہ نیکی کیا کرتے تھے،ان کے ساتھ نیکی کرو اور ان کے دوستوں کی تکریم کرو (سنن ابو داؤد۔ رقم الحدیث۔ ۲۴۱۵)

حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ! گزشتہ امتوں کے مقابلہ میں تمھاری مدت اتنی ہے جیسے عصر کی نماز سے غروب آفتاب تک کا وقت ہو۔
(مجمع الزاوئد۔ ج۔ ۰۱۔ ص۔ ۱۱۳)
 حضرت بریدہ بیان کرتے ہیں کہ! رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ! مجھے اور قیامت کو ان دو انگلیوں کی مثل ساتھ ساتھ بھیجا گیا ہے۔آپ ﷺ نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کو ساتھ ساتھ ملا کر فرمایا (مسند احمد۔ ج۔ ۵۔ ص۔ ۸۴۳)

انفرادی اور اجتماعی خرابیوں کو دور کرنے میں عقیدہ آخرت کے اثرات

 عقیدہ آخرت کے انفرادی زندگی پر اثرات

Impact of Belief in Akhira and Day of Judgement on an Individual

انسان میں جب یہ یقین کامل ہو کہ ایک دن ہمیں یہاں سے جانا ہے تو انسان اسلام کی حدود میں رہنے کی کوشش کرتا ہے۔کیونکہ وہ جانتا کہ اس کے ہر عمل سے متعلق باز پرس کی جائے گی۔ وہ اس دنیا کو ہی سب کچھ نہیں سمجھ لیتا ہے۔ لیکن اگر یہ عقیدہ معاشرے میں کمزور پڑ جائے تو معاشرہ طرح طرح کی برائی کی آماج گاہ بن جاتا ہے۔ ظلم و ستم،ناانصافی،دھوکہ، جھوٹ سرکشی، نفرت، عداوت،قتل وغارت گری وغیرہ پھلنے پھولنے لگتی ہے۔

چنانچہ عقیدہ آخرت کے عقیدے کی مضبوطی سے افراد کی کردار سازی ہوتی ہے اور اس میں درج ذیل خصوصیات پیدا ہوتی ہیں۔

ا۔ وہ گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔
ب۔ فرد میں نیکی اور عبادات کا شوق پیدا ہوتا ہے۔
ج۔ وہ بے حیائی اور بدکاری سے بچتا ہے۔
س۔ دنیا کی محبت اس کے دل میں کم ہوتی ہے جبکہ آخرت کا ڈر اور اس کی تیاری اس کے پیش نظر رہتی ہے۔
ش۔ فرد کا تعلق اپنے رب سے مضبوط ہوتا ہے۔اور اس کے دل میں خشیت الہی پیدا ہوتی ہے۔
ص۔ فرد کا توکل اللہ پر بڑھتا جاتا ہے جبکہ اس کا بھروسہ دنیا اور اہل دنیا پر سے کم ہوجاتا ہے۔
ض۔ فرد اپنے گناہوں پر شرمندہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ توبہ اور استغفار کی کثرت کرتا ہے۔
ط۔ اللہ کی مخلوق سے پیار اور ہمدردی کرتا ہے اور ان کے کام آنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔
ظ۔ فرد اللہ کے بتائے ہوئے قاعدے قوانین کی پاسداری کرتا ہے اور ہر برے کام سے رکتا ہے۔
ع۔ فرد میں صبر وشکر کے جذبات بڑھتے ہیں اور وہ اللہ کی نعمتوں پر اللہ کا شکر گزار ہوتا ہے جبکہ تکالیف پر صبر کرتے ہوئے اللہ سے مدد طلب کرتا ہے۔
غ۔ فر د ہر حال میں راضی بہ رضا رہتا ہے اور اللہ اس کو جس حال میں رکھتا ہے اس حال پر وہ خوش اور مطمئن رہتا ہے۔

Effects of belief in Akhirah and Day of judgement on Society

عقیدہ آخرت کے اجتماعی زندگی پر اثرات

ا۔ عقیدہ آخرت کے اجتماعی زندگی پر بھی مثبت اور گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔
ب۔ افراد میں اجتماعی عبادات کا شعور اور شوق بیدار ہوتا ہے۔
ج۔ گناہوں سے بچنے کی ترغیب پیدا ہوتی ہے۔اور افراد میں سماجی طور پر ایک دوسرے کی کردار سازی اور نیکی کی تلقین اور برائیوں سے روکنے کیاچھی عادت پیدا ہوتی ہے۔
س۔ سماج میں اسلامی اقدار کو فروغ حاصل وہتا ہے۔ نوجوانوں اور بچوں کے اخلاق پر نظر رکھی جاتی ہے۔
ش۔ معاشرتی سطح پر خدمت خلق اور مخلوق خدا کے ساتھ محبت اوران کی خدمت کے شعور کو اجاگر کیا جاتا ہے۔
ص۔افراد کبیرہ اور صغیرہ گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ض۔ جس سماج میں عقیدہ آخرت مضبوط بنیادوں پر استوار ہوتا ہے وہاں گناہ اور جرائم کی شرح کم ہوتی ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *