شرعی حجاب عقل ونقل کی نظرمیں

شرعی حجاب عقل ونقل کی نظرمیں

مفتی صدیق احمد مارچ 09, 2022  اردومضامین

شرعی حجاب عقل ونقل کی نظرمیں

ازقلم: مفتی صدیق احمدبن مفتی شفیق الرحمن قاسمی

    زمانۂ جاہلیت میں ظلم وتشدد،عصیان ونافرمانی، بےحیائی اورفحاشی عروج پرتھی، بےجارسم ورواج کاخوب چلن تھا،عورتوں کی پیدائش کومعیوب سمجھاجاتاتھا،کہیں توزندہ درگورکردیاجاتااورکہیں زندہ رکھاتوجاتا،لیکن اس پرجبرواستبداد کےپہاڑتوڑے جاتے، چھوت چھات کامعاملہ حدسےبھی آگےبڑھ گیاتھاـ۔ایسےتاریک دورمیں لوگوں کوگھٹاتوپ تاریکی سےنکال کرروشنی کی طرف لانے کے لیے ا سلام کی آمدہوئی،اسلام نےہرایک کومہذّب زندگی جینےکاسلیقہ سکھایا،شرم وحیاکی چادراوڑھنےکاطریقہ بتایااورمردوعورت ہرایک کے جسم کےمخصوص حصےکوچھپائےرکھنےکاحکم دیا،تاکہ بےحیائی اورفحاشی پرروک لگ سکے۔ـ مردوعورت ہرایک کوقابل احترام سمجھا،عورتوں کو عزت کےاعلی مقام پرفائزکردیا،بیٹی ہوتورحمت،بیوی ہوتوعزت اورماں ہوتوجنت کااعزازعطاکیاـ۔جیسےجیسےاسلام پھیلتاگیاانسانی زندگی کوسنوارنےدین اوردنیابنانےکےلیےبہ تدریج احکام الٰہیہ کانزول ہوتارہا، معاشرے میں رائج برائیوں پردھیرےدھیرےروک لگتی گئ،اسی عرصےمیں ایک اہم حکم حجاب (پردہ)  ۵ھ؁ میں اترا،جوکہ عورتوں کےفتنےمیں پڑنے سے روکنے کے لیے بہت ہی مؤثرتھا۔ـ

  حجاب کےمعنی پردہ، اوٹ،نقاب اورڈھانکنےکےہیں،جوکہ مردوعورت ہرایک کی عزت وناموس کی حفاظت کےلیے عقلی، نقلی،فطری اورطبعی اعتبارسےاہم اورضروری ہے،البتہ فرق صرف اتناہےکہ مردوعورت کےاعضائےمستورہ کی حدالگ الگ ہےـ۔     سترالعورۃ واجب علی کل حال (المبسوط للسرخسی ۲/۵۹)حصۂ سترکاچھپاناواجب ہےہرحال میں۔ عورۃ الرجل مابین سرتہ الی رکبتیہ  (المبسوط للسرخسی ۱۰/۱۴۶)مردکاحصۂ سترناف سے گھٹنوں تک ہے۔

    معلوم ہواکہ سترعورت کافریضہ حضرت آدمؑ اورحضرت حواؑکےجنت میں رہنے سے لےکردنیامیں آنےکےبعد اوراس کے بعد سےتمام ہی انبیاء علیھم السلام کی شریعت میں فرض رہا۔البتہ عورتوں کوپردےمیں رہنےکاحکم    ۵  ھ؁میں نازل ہوا۔  

    حجاب ابتدائی دورسےآج تک:

  ابتدائی زمانےمیں سلےہوئےلباس نہیں پہنےجاتےتھے،بلکہ دوکپڑوں کااستعمال ہوتاتھا،جن میں سےایک تہہ بند او ر دوسرا قمیص کے طورپربدن پررکھاجاتاتھا،پھرزمانہ برق رفتاری سےآگےبڑھتاگیا،لباس میں بھی بہ تدریج تبدیلی آتی رہی، سلے ہوئے موٹے ڈھیلےڈھالےلباس پہنےجانےلگے،اب سلےہوئےکپڑوں کی الگ الگ شکلیں متعارف ہوئی،جس کی وجہ سےبدن کوچھپانااوربھی آسان ہوگیا، رفتہ رفتہ یہ معاملہ آگےبڑھ گیااورلوگ سہولت پسندی،فیشن پرستی پراُترآئے،لہٰذااب نئےنئےمنقَّش، مزیَّن برقعے،  قمیص اورپوشاک بازارمیں دستیاب ہونےلگے،لوگوں کی ذہنیت،سوچ اورفکریں بدلتی گئ،حتی کہ لباس،پوشاک، برقع ضرورت سےنکل کراب زیب وزینت کامَظْہَرْبن گیااوراس طرح لباس نےاپنی مقصدیَّت کھودی،چونکہ ایسےجاذبِ نظراورتنگ برقعے پہنے جانےلگے کہ ہرایک کی نظراس کی طرف لگی رہ جائے،کوئی دیکھےتوبس دیکھتاہی رہ جائے،حالاں کہ ایسےبرقعےکااستعمال اسلام کی تعلیمات کےخلاف ہے،شریعت کےاحکام کی خلاف ورزی ہے،جس سےاجتناب ازحدضروری ہےـ۔

  واقعی یہ بات مسلَّم ہےکہ جس میں جتنی حیاہےوہ اتناہےحجاب کرتاہےاورجوجتنےبےحیاہیں وہ اتنےہی ننگےپھرتےہیں۔ ـ

  دراصل حجاب کامقصدحیا،پاکدامنی،عورتوں کےعزت وناموس کی حفاظت،چال، ڈھال اورجسم کی ساخت کو چھپائے رکھناہے، تاکہ جنسی بھیڑیوں کی شہوت انگیزنظریں متلذَّذہوکرشیطانی تیرکانشانہ نہ بن سکے۔یہ سارےمقاصداسی وقت حاصل ہوں گےجب کہ حجاب شرعی ،ڈھیلےڈھالے،جسمانی ساخت کوچھپائےرکھتےہوں اورچال ،ڈھال ،مواضعِ زینت کوپردئہ خفامیں رکھتےہوں، ورنہ حجاب اورپردےکی مقصدیَّت فوت ہوجائےگی ـ۔

  حجاب کاثبوت:

  شرعی اعتبارسےآیات قرآنیہ کی روشنی میں پردےکاثبوت سورۃ الاحزاب کی چارآیتوں۳۳،۵۳،۵۵،۵۹اورسورۃ النورکی تین آیتوں ۳۰۫،۳۱،۶۰سےہے، اس سلسلےمیںحدیث کی ستر۷۰روایتیں بھی واردہوئی ہیں؛ان تمام کی روشنی میں فقہاکرام نے لکھاہے کہ:شرعی  پردہ کے تین درجےہیں۔(۱)ادنی(۲)اوسط(۳)اعلی۔

  (۱)ادنی درجہ  :  چہرہ ،ہتھیلیوں کے علاوہ اوربعض کےنزدیک پیروںکےعلاوہ بھی باقی تمام بدن کو کپڑے سے چھپایاجائے۔

  دلیل:  ولایبدین زینتھن الاماظہرمنھا(النور۳۱)  وفسربالوجہ۔ ترجمہ:اوراپنی زینت ظاہرنہ کریں مگروہ جواس میں سے ظاہر ہوجاتی ہو۔اوراس کی تفسیرکی ہےچہرےسے۔

  (۲)اوسط درجہ  :  پورے بدن کو یعنی چہرہ ،ہتھیلیوں اورپیروں کوبھی برقع سے چھپایاجائے۔

  دلیل : یدنین علیھن من جلابیبھن(الاحزاب۵۹)ترجمہ: وہ اپنےچہرےپراپنی چادرکاکچھ حصہ لٹکائےرکھیں۔

  (۳)اعلی درجہ  : عورت دیواریاپردےکےپیچھےآڑمیں اس طرح رہےکہ اس کے کپڑوں پربھی اجنبی مردوں کی نظرنہ پڑے۔

  دلیل :  وقرن فی بیوتکن (الاحزاب۳۳)ترجمہ: اوراپنےگھروں میں ٹھہری رہو۔  واذاسأ لتموھن متاعافسٔلوھن من وراء حجاب (الاحزاب ۵۳)ترجمہ: اورجب امہات المؤمنین سے تمہیں کوئی چیزمانگنی ہو،توپردہ کےپیچھےسےان سے سوال کرو۔ا لمستفا د امداد الفتاوی ۔  

  چہرہ ڈھانکنےکی عقلی دلیل :

عورت کاچہرہ ہی وہ پُرکشش جگہ ہےجس پرنظرپڑنےکےبعدخیالات کاہجوم اُمنڈآتاہےاوریوں آنکھوں سےزناکی شروعات ہوتی ہے،پھریہ سلسلہ درازہوتارہتاہےاورشرمگاہ کوبھی زنامیں ملوث کردیتاہے؛اسی لیےاسےڈھانکنےکاحکم دیا،تاکہ زناکےاسباب سے بھی بچاجاسکے۔

  قرآنی آیت یدنین  میں ادنی کےلغوی معنی قریب کرنا ،لیکن جب علی صلہ آئے تواس کامعنی ہوتاہےلٹکانااوریہ اسی وقت متحقق ہوگا جب کہ چہرہ ڈھکاجائے۔

  مشاہدہ سےیہ ثابت ہوتاہےکہ آج کل شادی کےلیے اگرکوئی لڑکی دیکھنےجاتاہےتوچہرہ لازمی دیکھتاہے،خواہ جسم دیکھےیانہ دیکھے،کبھی ایسانہیں ہواکہ پوراجسم دیکھاہواورچہرہ نہ دیکھاہو؛لہٰذامشاہدہ بھی اس بات کی تائید کرتاہےکہ چہرہ کابھی پردہ ہوناچاہیے۔

  حجاب کےفائدے:

  پردےسےعورت کےعزت وناموس کی حفاظت ہوتی ہے،نسب محفوظ رہتاہے،پردے کی وجہ سےنظر ،حسن اور دل کی پاکیزگی حاصل ہوتی ہے،اللہ تبارک وتعالی کاقرب حاصل ہوتاہے،معاشرہ پاکیزہ رہتاہے،نیکی کاشوق پیداہوتاہےاورتقوی والی زندگی نصیب ہوتی ہے،باحجاب عورت شیطان سےمحفوظ رہتی ہے، حجاب بہت سے فتنے اورگناہوں سےبچالیتاہے۔

  بےحجابی کےنقصانات:

  بےپردہ عورت اللہ تعالی کی غیرت کوللکارتی ہے اورہروقت اللہ تبارک وتعالی کی ناراضگی میں رہتی ہے۔ایسی عورتیں جلدفتنےمیں پڑجاتی ہیں،دنیامیں بھی ان کےنسب کی حفاظت مشکل ہوجاتی ہےاوررسوائی کاسامناکرناپڑتاہے،بےپردہ عورت کی صحت خراب ہوجاتی ہے،چونکہ وہ جلد عشق ومعاشقہ میں گرفتارہوجاتی ہے،اورمرنے کےبعد بھی بےپردہ عورت عذاب قبرمیں مبتلارہتی ہے۔

  حجاب پراتناہنگامہ کیوں؟

  اسلام ہی ایک ایسابرحق مذہب ہےجوقیامت تک کی انسانیت کےلیےمشعلِ راہ کی حیثیت رکھتاہے،اسی وجہ سےاسلام روزِاوّل سےہی تیزی سےپھیل رہاہےاورآج بھی اس کادائرہ وسیع ترین ہوتاجارہاہے،حالاں کہ دشمنانِ اسلام کاایک قافلہ ہمیشہ سےاسلام اورمسلمانوں کونیست ونابودکرنےکی ناکام کوشش میں لگاہواہے،لیکن ایسےلوگ خودہی ہلاک ہورہےہیں اوراسلام محفوظ ہے،اسی کوشش کانتیجہ ہےکہ بھارت جیسا(نام نہاد)جمہوری ملک جہاں آئینِ ہندکی دفعہ ۲۵ کےتحت تمام اشخاص کو آزادئ ضمیر، اورآزادی سے مذہب قبول کرنے، اس کی پیروی اور اس کی تبلیغ کامساوی حق ہے بشرطےکہ امن عامہ، اخلاق عامہ، صحت عامہ اور اس حصہ کی دیگر توضیعات متأثر نہ ہوں۔اس قانون کےتحت ہرشہری کواپنےمذہب ومسلک پرآزادانہ طورپرعمل پیراہونےکی آزادی حاصل ہے،لیکن چونکہ بھارت اس وقت تاریخ کےسیاہ ترین دورسےگذررہاہے،جہاں ہراقلیت کوہراساں کیا جارہاہے، ڈر ا دھمکا کررکھاجارہاہے،ان پرظلم وتشدد کے پہاڑ توڑے جارہےہیں،مسلسل ان کےمذہبی شعائرکی اہانت کی جارہی ہے،ان کونفسیاتی اورجذباتی ٹھیس پہنچائی جارہی ہے،ملک کی معیشت کو تباہ وبربادکردیاگیا،غنڈوں کی پشت پناہی کی جاتی ہےاورمعصوموں سےجیلوں کوبھراجاتاہے،موجودہ حکومت بشمول اپنی تمام فرقہ پرست تنظیموں کےاپنی طاقت کاناجائزاستعمال کرکےہرایک کوآئےدن نئےنئےمعاملات میں الجھائےرکھناچاہتی ہے،ابھی ایک معاملہ ختم نہیں ہوتااوراس کازخم مندمل نہیں ہوتاکہ فورًادوسرامعاملہ اٹھادیاجاتاہے،جس کامقصدفرعونیت اورصہیونیت کےسہارےدجالی منصوبوں کوتھوپنااورہرایک کوغلام بناناہے،اوراس وقت چونکہ حکومت اپنی ناکامی، نااہلی کی وجہ سےملک کوسنبھالنےمیں،ملک کےمسائل کوحل کرنےمیں ناکام ہے،اس لیےمذہبی معاملات کواٹھاکر، ہندومسلم کرناچاہتی ہے،حکومت اس سےقبل بابری مسجد،طلاق ثلاثہ کےذریعےشریعت میں مداخلت کرچکی ہے اوراب حجاب کے معاملے کو اٹھاکرشریعت پرعمل کرنےسےروکناچاہتی ہے،اگلےمقاصدمیں سےیکساں سول کوڈکانفاذہے،تاکہ لوگوں کو ادھر الجھا کر ووٹوں کی تقسیم اورچوری کی جاسکےاور اس کی ظالمانہ حکومت برقراررہ سکے۔

  لہٰذاحالیہ واقعہ بھی اسی کاجیتاجاگتاثبوت ہے،جس میں کرناٹک کی مسکان خان نامی لڑکی نےبھیڑیوں کےہجوم میں نہتی ہوکربھی اللہ اکبرکی صدابلندکرکےدینی حمیت اورمذہب اسلام سےمحبت کی اعلی مثال قائم کردی،مزیدبرآں اس کےاس عمل نےحجاب کے معاملےکو عالمی سطح پرموضوع بحث بنادیا،آج حجاب کاتعارف پوری دنیامیں ہورہاہےاوریہ تحریربھی اسی تعارف کاپیش خیمہ ہےـ۔

  لائحۂ عمل:

اس وقت ضرورت ہے کہ اسلامی تعلیمات کوخوب عام کیاجائےاوردین کےتمام احکام پرعمل کرنےمیں تصلّب(سختی اورمضبوطی) سےکام لیاجائے، تاکہ کسی بھی قسم کےحالات میں دین کاسودانہ کرسکیں،معاشرےکی بیٹیوں کوہمیشہ باحجاب رہنےکی تلقین کی جائے، مذہبی تعلیم کومقدم رکھتےہوئےاسےاولیں ترجیح دی جائےاورباطل طاقتوں سےجسمانی، ذہنی اورنفسیاتی مقابلےکاطریقہ سکھایا جائے، ہمت، قوت اورطاقت سےزندگی گزارنےکاسلیقہ سکھایاجائے،ہرایک کواستقامت کےساتھ اپنےمذہبی آزادی کےحصول کےلیے تَن، مَن دَھن کی بازی لگانےکےلیےتیارکیاجائے،جہاں جہاں طالبات کومزاحمت کاسامناکرناپڑرہاہووہاں کےعلما،صلحا،ذمہ داران اورنوجوان طبقہ آگےبڑھےاوران کےساتھ شانہ بہ شانہ کھڑےہوکران کوقانونی امدادفراہم کرے،تاکہ وہ مضبوطی سےاپنےحقوق کی وصول یابی کےلیےمتحدہوکرکھڑی ہوسکیں،غرض ہرطبقےکےلوگ اپنی استطاعت کےمطابق ایسی طالبات کادامے ،درمے، قدمے، سخنے، ہر اعتبار سےسا تھ دیں گےتوان شاءاللہ یہ ایک انقلابی قدم ثابت ہوگاـ۔

  خلاصئہ کلام یہ ہےکہ: حجاب کےمقصدکوسامنےرکھتےہوئےشرعی حجاب کو روارج دیں،باطل طاقتوں سےڈرنے کے بجائے ہمت، قوت وطاقت اوراستقامت سےکھڑےہوکرمقابلہ کرکےاپنےحقوق کی وصول یابی کےلیے کھڑےہو نے والے بنیں، اپنےلیے صحابیات کی زندگیوں کونمونہ بناکران کےمطابق چل کرمشکلات،مصائب اورتکالیف کوبرداشت کرتے ہوئے شریعت پرمضبوطی سےعمل پیرا ہونےکی کوشش کریں،حجاب کاتعارف پوری دنیامیں پیش کریں،حجاب عورتوں کےعزت وناموس کی حفاظت کااعلی ترین ذریعہ ہےاس کاہرایک کواحساس دلائیں،اسلامی تعلیمات کوخود سیکھیں اورقولا،فعلااس کوخوب عام کریں،باطل طاقتوں کی سازشوں سے ہوشیار رہیں  اورکسی بھی طرح ان کےآلۂ کاربن کران کوتوشہ فراہم نہ کریں،اگرہم میں سےہرایک ان تمام امورکواپنی اپنی ذمہ داری سمجھیں اور اپنی استطاعت کےمطابق احساسِ ذمہ داری کےساتھ عائدشدہ ذمہ داریوں کوپوری امانت داری کےساتھ اداکریں ـ گےتوان شاء اللہ باطل کی ساری تدبیریں الٹ جائیں گی اورغیبی مددبھی ہمارےساتھ رہےگی۔

  اللہ تبارک وتعالی سےدعاہےکہ ہم سب کوقوت وطاقت، ہمت وحوصلہ ،بہادری اوراستقامت کےساتھ مذہب اسلام پرعمل پیراہونےاوراسلام کی تعلیمات کوعام کرنےکی توفیق عطافرمائےـ۔ آمین ۔ـ 

ہورہی ہےہوس کی بلابےنقاب                         اوڑھ لےہرمسلمان بیٹی حجاب

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *