“Ar-rijalu qawwamuna alan nisa” is a verse from the Quran that translates to “Men are the protectors and maintainers of women“. It appears in Surah an-Nisa’, verse 34.
The verse is interpreted in a variety of ways, with some scholars saying it’s a deterrent from domestic violence. Others debate the translation of the verse, which can also be read as “discipline them gently”.
The word qawwam has multiple meanings, including: To commit, To take care of, To maintain, To be serious, and To be committed.
The verse also discusses how a husband should deal with his wife’s disloyalty.
(4:34) Men are the protec-tors and maintainers of women56 because Allah has made one of them excel over the other,57 and because they spend out of their possessions (to support them). Thus righteous women are obedient and guard the rights of men in their absence under Allah’s protection.58 As for women of whom you fear rebellion, admonish them, and remain apart from them in beds, and beat them.59 Then if they obey you, do not seek ways to harm them. Allah is Exalted, Great.
56. A qawwam or qayyim is a person responsible for administering and supervising the affairs of either an individual or an organization, for protecting and safeguarding them and taking care of their needs.
57. The verb used here – a derivative of the root fdl – is not used to mean that some people have been invested with superior honour and dignity. Rather it means that God has endowed one of the sexes (i.e. the male sex) with certain qualities which He has not endowed the other sex with, at least not to an equal extent. Thus it is the male who is qualified to function as head of the family. The female has been so constituted that she should live under his care and protection.
58. It is reported in a tradition from the Prophet (peace be on him) that he said: ‘The best wife is she who, if you look at her, will please you; who, if you bid her to do something, will obey; and who will safeguard herself and your property in your absence.’ (Cited by Ibn Kathir, and reported by Tabari and Ibn Abi Hatim. See Mukhtasar Tafsir Ibn Kathir, 3 vols., ed. Muhammad ‘All al-Sabuni, 7th edition, Beirut, 1402 A.H./1981 C.E.; vol. 1, p. 385 and n. 1 – Ed.) This tradition contains the best explanation of the above verse. It should be borne in mind, however, that obedience to God has priority over a woman’s duty to obey her husband. If a woman’s husband either asks her to disobey God or prevents her from performing a duty imposed upon her by God, she should refuse to carry out his command. Obedience to her husband in this case would be a sin. However, were the husband to prevent is wife from performing either supererogatory Prayer or Fasting – as distinct from the obligatory ones – she should obey him, for such acts would not be accepted by God if performed by a woman in defiance of her husband’s wish. (See Abu Da’ud, ‘Sawm’, 73; Ibn Majah, ‘Siyam’, 53 – Ed.)
59. This does not mean that a man should resort to these three measures all at once, but that they may be employed if a wife adopts an attitude of obstinate defiance. So far as the actual application of these measures is concerned, there should, naturally, be some correspondence between the fault and the punishment that is administered. Moreover, it is obvious that wherever a light touch can prove effective.one should not resort to sterner measures. Whenever the Prophet (peace be on him) permitted a man to administer corporal punishment to his wife, he did so with reluctance, and continued to express his distaste for it. And even in cases where it is necessary, the Prophet (peace be on him) directed men not to hit across the face, nor to beat severely nor to use anything that might leave marks on the body. (See Ibn Majah, ‘Nikah’, 3 – Ed.)
مرد عورتوں سے افضل کیوں؟ ٭٭
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ مرد عورت کا حاکم رئیس اور سردار ہے۔ اسے درست اور ٹھیک ٹھاک رکھنے والا ہے۔ اس لیے کہ مرد عورتوں سے افضل ہیں یہی وجہ ہے کہ نبوت ہمیشہ مردوں میں رہی بعینہ شرعی طور پر خلیفہ بھی مرد ہی بن سکتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں وہ لوگ کبھی نجات نہیں پاسکتے جو اپنا والی کسی عورت کو بنائیں۔ [صحیح بخاری:4425]
اسی طرح ہر طرح کا منصب قضاء وغیرہ بھی مردوں کے لائق ہی ہیں۔ دوسری وجہ افضیلت کی یہ ہے کہ مرد عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں جو کتاب و سنت سے ان کے ذمہ ہے مثلاً مہر نان نفقہ اور دیگر ضروریات کا پورا کرنا۔ پس مرد فی نفسہ بھی افضل ہے اور بہ اعتبار نفع کے اور حاجت براری کے بھی اس کا درجہ بڑا ہے۔ اسی بنا پر مرد کو عورت پر سردار مقرر کیا گیا جیسے اور جگہ فرمان ہے «وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ وَاللَّـهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ» [2-البقرة:228]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ عورتوں کو مردوں کی اطاعت کرنی پڑے گی اس کے بال بچوں کی نگہداشت اس کے مال کی حفاظت وغیرہ اس کا کام ہے۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ایک عورت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنے خاوند کی شکایت کی پس آپ نے بدلہ لینے کا حکم دے ہی دیا تھا جو یہ آیت اتری اور بدلہ نہ دلوایا گیا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:9305:مرسل و ضعیف]
ایک اور روایت میں ہے کہ ایک انصاری رضی اللہ عنہ اپنی بیوی صاحبہ کو لیے ہوئے حاضر خدمت ہوئے اس عورت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: یا رسول اللہ ! میرے اس خاوند نے مجھے تھپڑ مارا ہے، جس کا نشان اب تک میرے چہرے پر موجود ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے حق نہ تھا“، وہیں یہ آیت اتری کہ ادب سکھانے کے لیے مرد عورتوں پر حاکم ہیں تو آپ نے فرمایا: ”میں اور چاہتا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اور چاہا۔“ [میزان:8131:ضعیف]
صفحہ نمبر1684
شعبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں مال خرچ کرنے سے مراد مہر کا ادا کرنا ہے دیکھو اگر مرد عورت پر زناکاری کی تہمت لگائے تو لعان کا حکم ہے اور اگر عورت اپنے مرد کی نسبت یہ بات کہے اور ثابت نہ کر سکے تو اسے کوڑے لگیں گے۔ پس عورتوں میں سے نیک نفس وہ ہیں جو اپنے خاوندوں کی اطاعت گزار ہوں اپنے نفس اور خاوند کے مال کی حفاظت والیاں ہوں جسے خود اللہ تعالیٰ سے محفوظ رکھنے کا حکم دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”بہتر عورت وہ ہے کہ جب اس کا خاوند اس کی طرف دیکھے، وہ اسے خوش کر دے اور جب حکم دے بجا لائے اور جب کہیں باہر جائے تو اپنے نفس کو برائی سے محفوظ رکھے اور اپنے خاوند کے مال کی محافظت کرے“ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:9329:ضعیف]
مسند احمد میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ”جب کوئی پانچوں وقت نماز ادا کرے رمضان کے روزے رکھے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اپنے خاوند کی فرمانبرداری کرے اس سے کہا جائے گا کہ جنت کے جس دروازے سے تو چاہے جنت میں چلی جا۔“ [مسند احمد:191/1،قال الشيخ الألباني:حسن لغیرہ]
صفحہ نمبر1685
پھر فرمایا: ”جن عورتوں کی سرکشی سے ڈرو یعنی جو تم سے بلند ہونا چاہتی ہو نافرمانی کرتی ہو بےپرواہی برتتی ہو دشمنی رکھتی ہو تو پہلے تو اسے زبانی نصیحت کرو ہر طرح سمجھاؤ اتار چڑھاؤ بتاؤ اللہ کا خوف دلاؤ حقوق زوجیت یاد دلاؤ اس سے کہو کہ دیکھو خاوند کے اتنے حقوق ہیں“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”اگر میں کسی کو حکم کر سکتا کہ وہ ماسوائے اللہ تعالیٰ کے دوسرے کو سجدہ کرے تو عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے کیونکہ سب سے بڑا حق اس پر اسی کا ہے۔“ [مسند احمد:4/381،قال الشيخ الألباني:صحیح]
صحیح بخاری میں ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو اپنے بسترے پر بلائے اور وہ انکار کر دے تو صبح تک فرشتے اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔ [صحیح بخاری:3237]
صحیح مسلم میں ہے کہ جس رات کوئی عورت روٹھ کر اپنے خاوند کے بستر کو چھوڑے رہے تو صبح تک اللہ کی رحمت کے فرشتے اس پر لعنتیں نازل کرتے رہتے ہیں۔ [صحیح مسلم:120-1436]
تو یہاں ارشاد فرماتا ہے کہ ایسی نافرمان عورتوں کو پہلے تو سمجھاؤ بجھاؤ پھر بستروں سے الگ کرو، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یعنی سلائے تو بستر ہی پر مگر خود اس سے کروٹ موڑ لے اور مجامعت نہ کرے، بات چیت اور کلام بھی ترک کر سکتا ہے اور یہ عورت کی بڑی بھاری سزا ہے۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں ساتھ سلانا ہی چھوڑ دے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ عورت کا حق اس کے میاں پر کیا ہے؟ فرمایا یہ کہ جب تو کھا تو اسے بھی کھلا جب تو پہن تو اسے بھی پہنا اس کے منہ پر نہ مار گالیاں نہ دے اور گھر سے الگ نہ کر غصہ میں اگر تو اس سے بطور سزا بات چیت ترک کرے تو بھی اسے گھر سے نہ نکال۔ [سنن ابوداود:2142،قال الشيخ الألباني:صحیح]
پھر فرمایا اس سے بھی اگر ٹھیک ٹھاک نہ ہو تو تمہیں اجازت ہے کہ یونہی سی ڈانٹ ڈپٹ اور مار پیٹ سے بھی راہ راست پر لاؤ۔
صفحہ نمبر1686
صحیح مسلم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجتہ الوداع کے خطبہ میں ہے کہ عورتوں کے بارے میں فرمایا اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو وہ تمہاری خدمت گزار اور ماتحت ہیں تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ جس کے آنے جانے سے تم خفا ہو اسے نہ آنے دیں اگر وہ ایسا نہ کریں تو انہیں یونہی سی تنبیہہ بھی تم کر سکتے ہو لیکن سخت مار جو ظاہر ہو نہیں مار سکتے تم پر ان کا حق یہ ہے کہ انہیں کھلاتے پلاتے پہناتے اڑھاتے رہو۔ [صحیح مسلم:1218]
پس ایسی مار نہ مارنی چاہیئے جس کا نشان باقی رہے جس سے کوئی عضو ٹوٹ جائے یا کوئی زخم آئے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اس پر بھی اگر وہ باز نہ آئے تو فدیہ لو اور طلاق دے دو۔ ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی لونڈیوں کو مارو نہیں“ اس کے بعد ایک مرتبہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ آئے اور عرض کرنے لگے یا رسول اللہ! عورتیں آپ کے اس حکم کو سن کراپنے مردوں پر دلیر ہو گئیں اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مارنے کی اجازت دی اب مردوں کی طرف سے دھڑا دھڑ مار پیٹ شروع ہوئی اور بہت سی عورتیں شکایتیں لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو آپ نے لوگوں سے فرمایا: ”سنو میرے پاس عورتوں کی فریاد پہنچی یاد رکھو تم میں سے جو اپنی عورتوں کو زدو کوب کرتے ہیں وہ اچھے آدمی نہیں“ [سنن ابوداود:2146،قال الشيخ الألباني:صحیح]
اشعث رحمہ اللہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ میں سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا مہمان ہوا اتفاقاً اس روز میاں بیوی میں کچھ ناچاقی ہو گئی اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی صاحبہ کو مارا پھر مجھ سے فرمانے لگے اشعث تین باتیں یاد رکھ جو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر یاد رکھی ہیں ایک تو یہ کہ مرد سے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ اس نے اپنی عورت کو کس بنا پر مارا؟ دوسری یہ کہ وتر پڑھے بغیر سونا مت اور اور تیسری بات راوی کے ذہن سے نکل گئی۔ [سنن نسائی:5/9168،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
پھر فرمایا اگر اب بھی عورتیں تمہاری فرمانبردار بن جائیں تو تم ان پر کسی قسم کی سختی نہ کرو نہ مارو پیٹو نہ بیزاری کا اظہار کرو۔ اللہ بلندیوں اور بڑائیوں والا ہے۔ یعنی اگر عورتوں کی طرف سے قصور سرزد ہوئے بغیر یا قصور کے بعد ٹھیک ہو جانے کے باوجود بھی تم نے انہیں ستایا تو یاد رکھو ان کی مدد پر ان کا انتقام لینے کے لیے اللہ تعالیٰ ہے اور یقیناً وہ بہت زورآور اور زبردست ہے۔
صفحہ نمبر1687
بہت اچھی اور سبق آموز ویڈیو
جب تک حکمرانی گھر میں مردوں کی تھی گھر اور معاشرے میں سکون تھا آج اکثر و بیشتر گھروں میں عورتوں کی چلتی ہے اور گھریلو مسائل ختم نہیں ہوتے
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
Posted in adsmanager | Comments Off on میاں بیوی میں سے کس کا اختیار زیادہ ہے؟ بیوی کی خودمختاری سے کیا مراد ہے؟ – Man verses Woman
Comments are closed