جو ملک کلمہ کی بنیاد پر بنایا گیا آج تک نہ إسلام کا نمونہ بن سکا اور نہ إسلامی مملکت بس نام نہاد إسلامی جمہوریہ پاکستان جہاں نہ إسلامی معاشرہ کا بہترین نمونہ موجود ہے نہ بہترین إسلامی معاشرہ کی مثالیں اور جس ملک میں

(شبیر درانی)

جہیز ایک ایسی لعنت ہے جس کے خلاف بولتا تو ہر کوئی ہے لیکن اس گھناونے کام میں ملوث بھی تقریباً ہر شخص ہی ہے۔

جہیز کی لعنت کو ختم کرنے کے لئے جہاں لڑکے کی جانب سے پہل کرنے کی ضرورت ہے وہیں لڑکی اور اس کے گھر والوں کی جانب سے بھی موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔

آج سماج میں جو لوگ ببانگ دہل جہیز کو ختم کرنے کی بات کرتے ہیں وہ بھی عملی طور پر اسے مال غنیمت سمجھ کر جائز بنا لیتے ہیں ۔

وہ بیٹی کو اپنی جائیداد میں سے وراثت دینے میں ناک بھنوں چڑھاتے ہیں جبکہ اسی جائیداد کو بیچ کر جہیز دینے میں فخر محسوس کرتے ہیں بلکہ کتنا جہیز دیا اور شادی کے مصرف میں کتنا خرچ کیا ، رشتہ داروں کو فخر کے ساتھ بتاتے ہیں۔

بہت سے لوگ تو بیٹی بہن کی شادی کے بعد کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی بیٹی یا بہن کو وراثت کے بدلے جہیز دے چکے ہیں۔

اگر ماں باپ یا بھائیوں نے جہیز کے عوض وراثت سے لڑکی کو محروم کر دیا تو یہ ظلم ہوگا اور قیامت کے دن اس کا پورا پورا حساب دینا ہوگا۔ لہٰذا بیٹی کو جہیز نہیں، وراثت میں حصہ دیں اور سماجی میں جھوٹی شان کی خاطر اپنی آخرت کو برباد نہ کریں۔

جہیز کی روک تھام کے لئے قانون موجود ہے لیکن بٹاتا چلوں کہ قانون اپنا کام اسی وقت کرتا ہے جب سماج میں اس قانون کے تئیں بیداری ہو اور اس قانون کی عملداری کو یقینی بنانے کا عزم ہو مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ زبان سے تو سب جہیز کو برا کہتے ہیں مگر عملی طور پر اس کو بہت ہلکے میں لیتے ہیں ۔

سماج میں جہیز بیٹیوں کو ہدیہ یا تحفے کے طور پر نہیں بلکہ ناموری اور شہرت کی غرض سے دیا جاتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس کی خوب نمائش کی جاتی ہے اور گاوں ، سماج کو خاص طور پر برادری کے لوگوں کو بڑے فخر کے ساتھ دکھایا جاتاہے ۔

جہیز سے مراد وہ سازو سامان ہے جو شادی بیاہ کے موقع پر لڑکی کے اہل خانہ کی طرف سے مہیا کیا جاتا ہے، چاہے وہ نقد ،سونا و چاندی اور زیورات کی شکل میں ہو یا فرنیچر، برتن وغیرہ روز مرہ استعمال ہونے والی چیزوں کی صورت میں۔

ماضی کی طرح اب بھی جن معاشروں میں جلدی اور سادگی کے ساتھ نکاح کرنے کا دستور ہے، وہاں فحاشی،بے حیائی اور بدکاری کے واقعات کم تر پیش آتے ہیں اور جہاں اس کے برعکس شادی بیاہ کا انتظام مشکل اور پیچیدہ ہوتا ہے وہاں ہر سو بے حیائی اور بے پردگی کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں؛ اس لیے شادی بیاہ کے معاملات میں غیر ضروری رسموں کو جگہ دینے کا نتیجہ یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی بدولت معاشرے میں بے حیائی اور بے پردگی کو فروغ ملتا ہے۔

لڑکی والے بھی اس کا پورا انتظام کرتے ہیں اور لڑکے والوں کی طرف سے بھی اس کے باقاعدہ مطالبے ہوتے ہیں؛ بلکہ متعدد جگہوں پر تو اس رواج نے ا س حد تک ترقی کی ہے کہ رشتہ کی بات طے کرتے وقت ہی ساتھ یہ بھی طے کیاجاتا ہے کہ جہیز میں کیا کیا ملے گا؟ اس کا ایک نقصان تو یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ لڑکی کے اہلِ خانہ اکثر اوقات شرما شرمی میں اور دلی رضامندی کے بغیر ہی جہیز دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور دوسرا خراب نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ اس کے بدلے پھر لڑکے کے اہل خانہ سے بھی مختلف چیزوں کا مطالبہ شروع ہو جاتا ہے ؛ حالانکہ یہ دونوں باتیں شرعاً ممنوع، گناہ اور اخلاقی ومعاشرتی لحاظ سے حد درجہ نامناسب ہیں۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس پر کسی مسلمان کو ملامت کرنا اور طعنے دینا جائز ہوسکے

ایک کروڑ 35 لاکھ لڑکیاں شادی نہ ہونے پر گھروں میں بیٹھی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *