جماعت اسلامی کا 83 واں یوم تاسیس

جماعت اسلامی کا 83 واں یوم تاسیس

83rd Foundation Day of Jamaat-e-Islami

Aug 26 1941 – Aug 26, 2023

(دعوت ، اصلاح معاشرہ، سیاست، اقامت، خدمت، تعلیم و تربیت، جدوجہد، جذبوں، ولولوں، حوصلوں ،محبتوں، صداقتوں، امانت و دیانت، قربانیوں اور ایثار کے 82 سال مکمل)

“مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش” (کتاب کا نام بعد میں تبدیل کر کے تحریک آزادی ہند اور مسلمان رکھا گیا) کے مضامین یں مولانا مودودی کی طرف سے ایک اسلامی تحریک کی ضرورت اور اس کے لیے ایک جماعت کی تشکیل کی ضرورت کا اظہار کیا گیا تھا۔

بالآخر مولانا مودودی کی دعوت پر ملک بھر سے لاہور میں منعقدہ ابتدائی اجلاس میں 75 ارکان نے شرکت کی۔ اراکین کے اس خوبصورت گلدستہ میں ہر طبقہ فکر کے لوگ شامل تھے۔

26 اگست 1941 کو سید مودودیؒ نے اس اجتماع میں اقامت دین کی عالمی تحریک کی بنیاد رکھی۔

انتخاب امیر کا مرحلہ درپیش تھا۔

تاسیسی اجلاس میں امیر کے انتخاب سے قبل مولانا نے ارکان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے متعلق یہ غلط فہمی کسی کو نہ ہونی چاہیے کہ جب دعوت میں نے دی ہے تو آئیندہ اس تحریک کی رھنمائ کو بھی میں اپنا ہی حق سمجھتا ہوں، ہر گز نہیں، نہ میں اسکا خواہش مند ہوں نہ اس نظریہ کا قائل ہوں کہ داعی ہی کو آخرکار لیڈر بھی ہونا چاھیے۔ نہ مجھے اپنے متعلق یہ گمان ہے کہ اس عظیم الشان تحریک کا لیڈر بننے کی اہلیت مجھ میں ہے، نہ اس کام کی بھاری ذمہ داریوں کو دیکھتے ہوئے کوئ صاحب عقل آدمی یہ حماقت کر سکتا ہے کہ اس بوجھ کے اپنے کندھے پر لادے جانے کی خود تمنا کرے۔ درحقیقت میری غایت تمنا اگر کچھ ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ ایک صحیح اسلامی نظامِ جماعت موجود ہو اور میں اس میں شامل ہوں۔ اسلامی نظامِ جماعت کے تحت ایک چپڑاسی کی خدمت انجام دینا بھی میرے نزدیک اس سے زیادہ قابل فخر ہے کہ کسی غیر اسلامی نظام میں صدارت اور وزارتِ عظمی کا منصب مجھے حاصل ہو۔

انتخاب امیر کا مرحلہ مکمل ہوا ، سب نے متفقہ طور پر مولانا مودودیؒ کو جماعت کا امیر منتخب کر لیا۔
(آزاد ہندوستان میں 1948؁ء میں جماعت اسلامی ہند کی تشکیل نو عمل میں آئی۔ جس کے پہلے امیر جماعت مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی منتخب ہوئے۔)

جماعت کا ابتدائی سرمایہ صرف مخلص جذبوں والے کارکنان ہی تھے۔ 75 لوگوں کا مختصر سا قافلہ بے سروسامانی میں مشکل اور کٹھن ترین سفر پر چلا۔ *74 روپے، دو ہزار کی کتابیں بک ڈپو میں، خوشحال عنصر ایک فیصد سے زائد نہ تھا۔ *

جماعت کے ابتدائی شعبہ جات میں
1.شعبہ فکری و تعلیمی
2.شعبہ دعوت
3.شعبہ تنظیم
4.شعبہ نشر و اشاعت
5.شعبہ مالیات

علمی تحقیق کے شعبہ کو تحریک اسلامی کا دل اور دماغ قرار دیا گیا۔

جماعت اسلامی کے قیام کا مقصد انسانی زندگی کے پورے نظام کو اس کے تمام شعبوں ، فکر و نظر، عقیدہ و خیال، مذہب و اخلاق، سیرت و کردار، تعلیم و تربیت ، تہذیب و ثقافت، تمدن و معاشرت، معیشت و سیاست، قانون و عدالت، صلح و جنگ، بین الاقوامی تعلقات کو اللہ تعالیٰ کی بندگی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر قائم کرنے کی جدوجہد ہے۔

قیادت کا سفر , 82 درخشاں سال

مولانا سید ابوالاعلی مودودی رحمہ اللہ 1941-1972 ، علم و دانش

میاں طفیل احمد مرحوم 1972-1987 ، فکر و عمل
3.قاضی حسین احمد مرحوم 1987-2009 ، جہدِ مسلسل

سید منور حسن مرحوم 2009-2014 ، تقوی و جرات

محترم سراج الحق 2014 تا حال ، عزم جواں

جماعت اسلامی اپنی دعوت کے ذریعہ انسان کے بنائے ہوئے باطل نظریات کو چیلنج کرتی ہے اور اپنی سیاست کے زریعہ احکامات الٰہی کے نفاذ اور فلاحی ریاست کے قیام کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت خدمت کے وسیع جذبہ کے تحت بے تحاشا سرگرمیاں کرتی ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ اس ننھے سے پودے کی شاخوں کی وسعت بڑھتی ہی گئی اور اب یہ ایک ایسا تناور درخت بن چکا ہے جس کے سائے کی ٹھنڈک پوری دنیا میں محسوس کی جاتی ہے۔ جماعت ایک ایسا شجر ہے جس کی ہر شاخ ثمر دار fruitful ہے۔

75 افراد سے شروع ہونے والا یہ قافلہ اس وقت پاکستان میں
ارکان : 45,380
امیدواران : 15,254
کارکنان: 2,30,675
ممبران: 16,08,855
مقامی جماعتوں: 2,857
کے ساتھ محض رضائے الٰہی کے حصول کی خاطر اقامت دین کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ (بحوالہ: ایشیاء اپریل 2023)

بچوں، طلباء، اساتذہ، علماء، مزدور، نوجوان ، تعلیم، خدمت ، کسان، ڈاکٹرز، انجنئیرز، وکلاء، تاجر ، اکاؤنٹس، ریلوے اور ہر شعبہ زندگی میں جماعت اسلامی کی برادر تنظیمات موجود ہیں۔ مرکز جماعت اسلامی پاکستان منصورہ میں شعبہ تنظیم، دعوت و تربیت، مالیات، آڈٹ، اطلاعات ، امور خارجہ، امور عامہ، سیاسی امور، تربیہ اکیڈمی، ادارہ معارف اسلامی، علماء اکیڈمی ، سوشل میڈیا ، تحقیق و تجزیہ سمیت مختلف شعبہ جات اور ادارے موجود ہیں۔

پاکستان کے علاوہ ہندوستان، بنگلہ دیش ، کشمیر اور سری لنکا میں بھی جماعت اسلامی موجود ہے۔ ترکیہ، تیونس، مصر، ملیشیاء، سوڈان ، الجزائر ، افغانستان ، فلسطین، سمیت دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے ساتھ اس کے قریبی روابط ہیں۔
جبکہ قطر، بحرین، کویت، جاپان ، ملائیشیا، کینڈا، جرمنی، یونان، سویڈن، سوئٹزرلینڈ ، سپین، ڈنمارک، نیوزی لینڈ، امارات، عمان، اٹلی، ناروے، جنوبی افریقہ، امریکہ، آسٹریلیا، برطانیہ، سعودی عرب وغیرہ میں اسی اقامت دین کی فکر پر مختلف سرکلز اور حلقہ جات قائم ہیں۔

آج الحمد للہ لاکھوں کروڑوں افراد دنیا بھر میں اس تحریک اور فکر سے کسی نہ کسی صورت میں وابسطہ ہیں۔ بلاشبہ مولانا مودودی نے اپنے قلم سے ایسی تحریری خوشبوئیں بکھیری ہیں جو 82 سال بعد یعنی آج بھی پوری دنیا میں محسوس کی جا سکتی ہیں۔

راشد مشتاق
اگست 26, 2023 (امریکہ)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *