جہیز کی وجہ ایک کروڑ 35 لاکھ لڑکیاں شادی نہ ہونے پر گھروں میں بیٹھی ہیں=Because of dowry, 1 crore 35 lakh girls are sitting at home because they are not married

جہیز کی وجہ ایک کروڑ 35 لاکھ لڑکیاں شادی نہ ہونے پر گھروں میں بیٹھی ہیں

(شبیر درانی)

جہیز ایک ایسی لعنت ہے جس کے خلاف بولتا تو ہر کوئی ہے لیکن اس گھناونے کام میں ملوث بھی تقریباً ہر شخص ہی ہے۔

اس لعنت کا شکار بن کر کتنی بیٹیوں کی زندگیا تباہ و برباد ہوگئیں اور بے شمار بیٹیاں گھٹ گھٹ کر زندگی گزار رہی ہیں۔

جہیز کی لعنت کو ختم کرنے کے لئے جہاں لڑکے کی جانب سے پہل کرنے کی ضرورت ہے وہیں لڑکی اور اس کے گھر والوں کی جانب سے بھی موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔

عموماً رشتہ ٹوٹنے کے خوف سے بیٹی والے بیٹے والوں کے مطالبات کو پورا کرتے جاتے ہیں اور اپنی کمائی کا خطیر حصہ جہیز کے نام پر داماد کو دے دیتے ہیں۔

کیا ہی اچھا ہوتا اگر شادی کے اس مبارک موقع پر دنیا کی رسم و رواج کو دیکھنے کے بجائے شریعت مطہرہ کی ہدایات کا ایک بار مطالعہ کرلیا جاتا جس میں لڑکے کو مہر ادا کرنے کا پابند بنایا گیا ہے اور لڑکی کو اپنے ساتھ جہیز لے کر جانے کا کوئی تصور نہیں ملتا۔

آج سماج میں جو لوگ ببانگ دہل جہیز کو ختم کرنے کی بات کرتے ہیں وہ بھی عملی طور پر اسے مال غنیمت سمجھ کر جائز بنا لیتے ہیں ۔

اس میں کیا دیندار اور کیا بے دین ،سب برابر ہیں ماشاءاللہ جب ہم سماج میں پائے جانے والی اس رسم کا تجزیہ کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس کو باقی رکھنے میں نہ صرف لڑکا، بلکہ لڑکی کے گھر والوں کا بھی مساوی کردار ہے۔

وہ بیٹی کو اپنی جائیداد میں سے وراثت دینے میں ناک بھنوں چڑھاتے ہیں جبکہ اسی جائیداد کو بیچ کر جہیز دینے میں فخر محسوس کرتے ہیں بلکہ کتنا جہیز دیا اور شادی کے مصرف میں کتنا خرچ کیا ، رشتہ داروں کو فخر کے ساتھ بتاتے ہیں۔

لڑکی والوں کی یہی جھوٹی شان اس لعنت کو سماج سے ختم کرنے میں رکاوٹ بن رہی ہے۔اگر لڑکی والے یہ عہد کرلیں کہ وہ جائیداد میں شریعت کا مقرر کردہ حصہ اپنی بیٹیوں کو دیں گے اور جہیز نہیں دیں گے تو لالچی داماد بھی لڑکی والوں کے اس فیصلے کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوں گے

بہت سے لوگ تو بیٹی بہن کی شادی کے بعد کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی بیٹی یا بہن کو وراثت کے بدلے جہیز دے چکے ہیں۔

پر یاد رکھیں اگر ماں باپ نے بیٹی کو جہیز دیا ہے تو اس سے وراثت کا حکمِ شرعی ہرگز ہرگز ختم نہیں ہوگا۔

اگر ماں باپ یا بھائیوں نے جہیز کے عوض وراثت سے لڑکی کو محروم کر دیا تو یہ ظلم ہوگا اور قیامت کے دن اس کا پورا پورا حساب دینا ہوگا۔ لہٰذا بیٹی کو جہیز نہیں، وراثت میں حصہ دیں اور سماجی میں جھوٹی شان کی خاطر اپنی آخرت کو برباد نہ کریں۔

جہیز ایک غیر مذہبی رسم ہے جو ہمارے ملک کے رگ و ریشہ میں سما گئی ہے ۔ اس کا مذہب سے دور تک کوئی واسطہ نہیں۔

جہیز کی روک تھام کے لئے قانون موجود ہے لیکن بٹاتا چلوں کہ قانون اپنا کام اسی وقت کرتا ہے جب سماج میں اس قانون کے تئیں بیداری ہو اور اس قانون کی عملداری کو یقینی بنانے کا عزم ہو مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ زبان سے تو سب جہیز کو برا کہتے ہیں مگر عملی طور پر اس کو بہت ہلکے میں لیتے ہیں ۔

جب سماج میں یہ سوچ رائج ہو تو بیٹیوں کو اذیت پہنچانے اور قتل کرنے کی راہیں تو کھلیں گی

سماج میں جہیز بیٹیوں کو ہدیہ یا تحفے کے طور پر نہیں بلکہ ناموری اور شہرت کی غرض سے دیا جاتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس کی خوب نمائش کی جاتی ہے اور گاوں ، سماج کو خاص طور پر برادری کے لوگوں کو بڑے فخر کے ساتھ دکھایا جاتاہے ۔

اس کے علاوہ بارات کی بھی خوب خاطر مدارات کی جاتی ہے اور پر تکلف کھانے کا اہتمام ہوتا ہے جو کہ سراسر اسراف میں داخل ہے۔

جہیز سے مراد وہ سازو سامان ہے جو شادی بیاہ کے موقع پر لڑکی کے اہل خانہ کی طرف سے مہیا کیا جاتا ہے، چاہے وہ نقد ،سونا و چاندی اور زیورات کی شکل میں ہو یا فرنیچر، برتن وغیرہ روز مرہ استعمال ہونے والی چیزوں کی صورت میں۔

نکاح سے متعلق شرعی تعلیمات پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ اس میں میسر و سہولت اور سادگی پسندیدہ ہے، اس موقع پر غیر ضروری مالی اخراجات یا عملی انتظامات شریعت کے مزاج کے خلاف ہے؛ کیونکہ یہی سرگرمیاں رفتہ رفتہ نکاح کا حصہ بنتی جاتی ہیں اور اگر کہیں اس کے تکمیل کے اسباب وسائل میسر نہ ہوں تو اس کی وجہ سے نکاح بھی موخر یا معطل ہو جاتا

ماضی کی طرح اب بھی جن معاشروں میں جلدی اور سادگی کے ساتھ نکاح کرنے کا دستور ہے، وہاں فحاشی،بے حیائی اور بدکاری کے واقعات کم تر پیش آتے ہیں اور جہاں اس کے برعکس شادی بیاہ کا انتظام مشکل اور پیچیدہ ہوتا ہے وہاں ہر سو بے حیائی اور بے پردگی کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں؛ اس لیے شادی بیاہ کے معاملات میں غیر ضروری رسموں کو جگہ دینے کا نتیجہ یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی بدولت معاشرے میں بے حیائی اور بے پردگی کو فروغ ملتا ہے۔

ہمارے یہاں ایک لمبے عرصہ سے جہیز کے لین دین کا تعامل جاری ہے؛اس لیے اب وہ نکاح کا ایک ضروری حصہ بن چکا ہے،

لڑکی والے بھی اس کا پورا انتظام کرتے ہیں اور لڑکے والوں کی طرف سے بھی اس کے باقاعدہ مطالبے ہوتے ہیں؛ بلکہ متعدد جگہوں پر تو اس رواج نے ا س حد تک ترقی کی ہے کہ رشتہ کی بات طے کرتے وقت ہی ساتھ یہ بھی طے کیاجاتا ہے کہ جہیز میں کیا کیا ملے گا؟ اس کا ایک نقصان تو یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ لڑکی کے اہلِ خانہ اکثر اوقات شرما شرمی میں اور دلی رضامندی کے بغیر ہی جہیز دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور دوسرا خراب نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ اس کے بدلے پھر لڑکے کے اہل خانہ سے بھی مختلف چیزوں کا مطالبہ شروع ہو جاتا ہے ؛ حالانکہ یہ دونوں باتیں شرعاً ممنوع، گناہ اور اخلاقی ومعاشرتی لحاظ سے حد درجہ نامناسب ہیں۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس پر کسی مسلمان کو ملامت کرنا اور طعنے دینا جائز ہوسکے

حالیہ سروے کے مطابق اس وقت

ایک کروڑ 35 لاکھ لڑکیاں شادی نہ ہونے پر گھروں میں بیٹھی ہیں۔

پاکستان میں 80 فیصد طبقہ مزدور ہے جو صرف 32 ہزار روپے ماہانہ تنخواہیں لیتے ہیں ، یہ 32 ہزار روپے والا بچی کو سکول میں داخل کروائے یا جہیز اکٹھا کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بیٹی کی پیدائش پر باپ ڈپریشن کا شکار ہوکر خودکشی کرلیتا ہے،

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *