urdu

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے۔

اردو زبان بر صغیر ہند کے تمام مذاہب کے ماننے والوں کے خون میں شامل ہے، اردو زبان کے ترویج و ترقی اور اسکو فروغ دینے میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم شعراء و ادباء نے بھی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ *منشی دیا نارائن نگم، منشی نول کشور، پریم چند، پنڈت دیا شنکر نسیم، پنڈت برج نارائن چکبست، رام پرساد بسمل، تلوک چند محروم، فراق گورکھپوری، راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، گیان چند جین* جیسے بے شمار غیر مسلم شعراء و ادباء کی فہرست ہے جس نے اردو زبان کو فروغ دینے میں تن من دھن کی بازی لگا دی۔ لیکن افسوس اب اس شیریں اردو زبان کو مخصوص مذہب سے جوڑ کر پابندی لگانے کی بات کی جا رہی ہے۔

اپنی اردو تو محبت کی زباں تھی پیارے
اُف سیاست نے اسے جوڑ دیا مذہب سے۔

کسی راجیہ کے پابندی لگانے سے وقتی طور پر آنچ تو آ سکتی ہے لیکن ختم نہیں کی جا سکتی۔

بیوقوف ہیں وہ لوگ جو اردو زبان کو کسی مخصوص مذہب نسلی امتیاز کا شکارسے جوڑ کر اسکے ساتھ discrimination کر رہے ہیں۔ ان کم عقلوں کو شاید یہ نہیں معلوم کی اردو زبان انتہائ flexible اور لچکدار زبان ہے جو وقت اور حالات کو دیکھتے اور سمجھتے ہوئے کسی بھی زبان کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہے، یہی وجہ ہیکہ اردو کئ زبان سے ملکر بنی ہے اور اسی لیئے اسکے معنی *لشکر/ فوج* کے آتے ہیں۔

یہ مختصر سی تحریر جو *اردو* پر مبنی ہے لیکن حیرت کی بات یہ کہ اسمیں اردو کے علاوہ *عربی، ہندی، فارسی اور انگریزی* یعنی چار زبانیں شامل ہیں۔ اس لیئے اردو زبان کو وقتی طور پر تو اس طرح کی غلیظ راجنیتی کے ذریعہ چوٹ پہونچایا جا سکتا ہے لیکن ختم نہیں۔

اخبار کی ہیڈنگ دیکھ کر ایک بہت پیارا سا شعر یاد آ رہا ہیکہ

اردو کو مٹا دیں گے ہم ایک روز جہاں سے
یہ بات بھی کمبخت نے “اردو” میں کہی ہے۔

✍🏻

:- ابو حمزہ علیگ۔

https://www.facebook.com/share/1A17TJQQK4