ایک عورت جسے 9،10 لوگ درندگی کا نشانہ بناتے ہے۔۔۔۔۔۔۔اتنی بری طرح سے اس کا جسم کچلا جاتا ہے کہ اس کے جسم کی ہڈیاں ٹوٹ جاتی ہیں۔مجھے یاد ہے اس کی ماں کے یہ الفاظ کہ کس طرح ٹانگیں ایک بیڈ کی ایک سائیڈ پر تھی دوسری دوسری سائیڈ پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔pelvic ٹوٹ چکی ہے،کمر کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے۔چشمہ ٹوٹ کر آنکھوں میں کنکڑیاں گھسی ہوئی ہیں۔۔۔۔۔۔ٹانگیں فریکچر اتنی کہ اکھٹی نہیں کی جاسکتی۔چہرہ اور جسم خون سے لت پت۔جسم پر 100 سے زائد کاٹنے کے نشانات۔۔۔۔۔۔۔۔۔شاید سانس ختم ہوگئی ہوگی اور ہوس پوری کرنے والے اپنی ہوس پوری کرتے رہیں ہونگے۔کس قدر درد سے گزری ہوگی کوئی اندازہ بھی نہیں کرسکتا۔ سرحد اور مذھب سے ہٹ کر سوچو تو وہ ایک عورت تھی۔۔۔۔ سچ لکھوں تو یہ ہے کہ پہلے دن پیدا ہونے سے لے کر عورت قبر تک محفوظ نہیں ہے۔میں ایک ایسی عورت سے بھی ملی ہوں،جس نے اپنے شوہر سے اس لئے طلاق لی تھی کہ اس کی 2 مہینے کی بیٹی اپنے باپ کے ہاتھوں محفوظ نہیں تھی۔(پوری کہانی پھر کبھی لکھوں گی) ہم اس معاشرے کا حصہ ہیں جہاں نقاب حجاب میں نظر کو جھکا کر چلنے والی بھی محفوظ نہیں۔قبر میں لیٹی لاشوں کو بھی دڑ ہوتا ہے گورکن سے اور یہ جھوٹ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک شادی شدہ عورت جو ماں باپ کی رضا سے نکاح کرکے مرد کے ساتھ آتی ہے وہ اس سے محفوظ نہیں۔۔۔۔۔۔وہ بھی پہلے ہی دن ہسپتال پہنچ جاتی ہے۔ مجھے اس ایک جملے سے حد سے زیادہ نفرت ہے کہ ہم اپنے گھر کی عورتوں کی بڑی عزت کرتے ہیں، گھر کی عورت کی تو سب عزت کرتے ہیں۔پتہ تو تب چلے جس دن تم یہ کہو میں غیرت والا ہوں باہر کی عورت بھی مجھ سے محفوظ ہے۔مگر ایسا کب ہوتا یہاں تو استاد سے بچے محفوظ نہیں،محرم رشتوں سے عورت محفوظ نہیں۔ تم عورتوں کو کسی کھلونے کی طرح توڑ کر پھینک دیتے ہو اور سوچتے ہو تم مرد ہو۔تمہارے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوگا تو یاد رکھو یہ اس دن ہوگا جس دن اس کائنات کا کوئی خدا نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔ عورت نہ سہی،اسے انسان تو سمجھو۔